فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
چنانچہ اس نے دونوں کو دھوکہ (13) دے کر اپنے جال میں پھانس لیا، پس جب دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کی شرمگاہیں دکھائی دینے لگیں اور دونوں اپنے جسم پر جنت کے پتے چسپاں کرنے لگے، اور ان دونوں کے رب نے انہیں پکارا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا تھا، اور کہا نہیں تھا کہ بے شک شیطان تم دونوں کا کھلا ہوا دشمن ہے
احساس عریانی : (ف ٢) معلوم ہوتا ہے جنت میں آدم اور حوا کی زندگی نہایت پاکیزہ اور معصومانہ تھی ، وہ جنسی جذبات سے ناآشنا تھے ، حجاب و ستر کے مفہوم سے بالا تھے ، جب شیطان نے دھوکہ دیا ، اور انہوں نے خلود و ملکیت کے فریب میں آکر شجرہ ممنوعہ کو استعمال کرلیا ، تو ننگے ہوگئے ، عریانی کا احساس ہونے لگا اور جنت کے پتوں سے ستر ڈھانکنے لگے ۔ بات یہ ہے کہ انسانی نفسیات میں یہ ہمہ گیر کمزوری ہے کہ جس بات سے روکا جائے اس کے متعلق خواہ مخواہ دل میں تحریص پیدا ہوتی ہے اور دل میں یہ سوال چٹکیاں لیتا ہے کہ آخر اس میں کیا حکمت ہے ، شیطان نے انسان کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور یہ کہہ کر بہکایا کہ ہو نہ ہو اس میں راز یہ ہے کہ کہیں تم بھی موت و فنا کے قاعدوں سے مستثنی نہ ہوجاؤ۔