وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اور جب ان کے لیے اللہ کی طرف سے ایک کتاب آئی جو ان کے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق کر رہی تھی۔ (تو اس کا انکار کربیٹھے) حالانکہ اس کے قبل کافروں پر غلبہ کی تمنا (١٤١) (اسی کتاب کے ذریعہ) کرتے تھے۔ تو جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان گئے تو اس کا انکار کردیا، پس اللہ کی لعنت (١٤٢) ہو کافروں پر
(ف ١) نزول قرآن سے پہلے یہودی ایک سرخ وسپید ” نبی کے منتظر تھے ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہو ، بحری ممالک جس کی راہ تکیں ، جو فاران کی چوٹیوں پر سے چمکے ، دس ہزار قدوسی جس کے ساتھ ہوں ، مگر جب وہ گورا چٹا نبی صحرائے عرب کی جھلس دینے والی فضا میں ظہور پذیر ہوا ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت تھی جس کی فتوحات سمندروں تک پہنچیں تو انہوں نے انکار کردیا ، حالانکہ اس سے پہلے وہ مخالفین سے ہمیشہ یہ کہتے کہ جب ہمارا موعود نبی آئے گا تو ہم غالب ہوجائیں گے اور ہماری موجودہ پستی بلندی سے بدل جائے گی ، قرآن حکیم پہلی کتابوں کا مصدق ہے ، وہ تمام صداقتوں کی تائید کرتا ہے ، تمام سچائیاں اس کے نزدیک قابل قبول ہیں ، مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ باقبل کو حرف بحرف صحیح سمجھتا ہے ، وہ ان مشترک سچائیوں کی تائید وتصدیق کرتا ہے جو مختلف فیہ نہیں ، ورنہ سینکڑوں ایسی باتیں ہیں کہ یہود نے محض بربنائے تعصب بدل دی ہیں ، تاکہ ان کا کوئی وقار قائم نہ رہے ۔