سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ
جن لوگوں نے شرک کیا (148) وہ عنقریب کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام قرار دیتے، اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گذرے ہیں انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا یہاں تک کہ ہمارا عذاب انہیں چکھنا پڑا، آپ پوچھئے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے (کہ اللہ تمہارے اعمال سے راضی ہے) تو اسے ہمارے سامنے ظاہر کرو، تم لوگ صرف ظن و گمان کے پیچھے لگے ہو، اور تم لوگ صرف جھوٹ بولتے ہو
(ف ١) مجرموں کا ایک بہت بڑا عذر یہ بھی ہوتا ہے کہ خدا کو ایسا ہی منظور ہے ، خدا اگر نہ چاہے تو ہم اور ہمارے آباء کے اختیار میں کیا ہے ، جو گناہ کا ارتکاب کریں ، کم بخت یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو اگر یہ گمراہیاں منظور ہوتیں تو انبیاء کیوں بھیجتا اور کتابیں کیوں نازل فرماتا ، اور نہ ماننے والوں کو سزائیں کیوں دیتا ، مکے کے مشرک بھی یہی کہتے ، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس عذر کا جواب دیا ہے اور پوچھا ہے ، کہ بتاؤ تمہارے پاس کوئی دلیل ہے جس سے اللہ کی کفر پسندی طور شرک نوازی ثابت ہو ، یامحض اٹکل اور تخمین کی بنا پر ایسا کہتے ہو ، یہ درست ہے ، خدا اگر چاہتا ، تو سب کو ہدایت کی توفیق دیتا ، مگر اس صورت میں تم کسی چیز کے مستحق نہ رہتے ، اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے ساتھ گمراہی کو پیدا کیا ہے ، تاکہ تمہارا امتحان ہو اور معلوم ہو کہ تم نے جو کچھ کیا ہے ، اختیار اور عقل کی بنا پر کیا ہے ، حل لغات : الحجۃ البالغۃ : کامیاب دلیل ۔ اتل ما حرم : مین بعض لوگوں نے حرم کے معنی اوجب کے لئے ہیں ، تاکہ ترتیب درست رہے ۔