سورة الانعام - آیت 116

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر آپ ان لوگوں کی بات مانیں گے جن کی زمین میں اکثریت (113) ہے، تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے وہ لوگ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور بالکل جھوٹی باتیں کرتے ہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اکثریت کی رائے : (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ ساری دنیائے کفر اسلام کی صداقت کو جھوٹ سے نہیں بدل سکتی ، صداقت کے لئے اکثریت شرط نہیں سچائی سچائی ہے ، اگرچہ ایک عالم اس کا مخالف ہو ، مکہ والوں کو ذبیحہ کے متعلق کچھ شبہات تھے ، وہ کہتے تھے اسلام میں ذبیحہ کا اصول عام دنیا سے مختلف ہے اس لئے ناقابل قبول ہے قرآن حکیم کہتا ہے یہی درست ہے ، اکثریت کی پیروی گمراہی ہے ۔ (آیت) ” ان تطع “۔ اور ” یضلوک “ ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے عوام کی پیروی کا امکان ہے بلکہ قرآن کا یہ عام انداز بیان ہے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرنا ہے اور مراد آپ کے ماننے والے ہوتے ہیں ، ورنہ آپ کے لئے ضلالت کا امکان کہاں ، (آیت) ” وما ضل صابکم وما غوی “۔ کی نص موجود ہے ۔ حل لغات : یخرصون : مادہ خرص ، اندازہ وتخمینہ سے کچھ کہنا ، مقصد یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے پاس ضابطہ وقانون نہیں ہے جسے عقل کی کسوٹی پر پرکھا جا سکے محض ادہام ، روایات ہیں جو تخمینہ واندازہ پر مبنی ہیں ۔