سورة الانعام - آیت 103

لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

مخلوق کی نگاہیں اس کا ادراک (99) نہیں کرسکتیں، اور وہ ان کی نگاہوں کا پورا ادراک کرتا ہے، اور وہ انتہائی دوربین و باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

لا تدرکہ الابصار : (ف ١) اسلام نے جو اللہ تعالیٰ کا تخیل پیش کیا ہے وہ نہایت بلند ہے ، اس میں تحیم اور تشکل کو قطعا دخل نہیں ، وہ کہتا ہے آنکھیں جن کی پہنچ ادیات میں سے سب سے زیادہ وسیع ہے اور ہمہ گیر ہے ، اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتیں ، ان میں وہ روشنی اور بینائی ہرگز موجود نہیں ہے ، جس سے رب السموت کا احاطہ کیا جا سکے ، مگر بایں عظمت وعلو ، وہ ہمارے حالات سے پوری طرح آگاہ ہے ، وہ باوجود مادیات سے الگ اور متعال ہونے کے ہماری باریک سے باریک حاجات کو بھی جانتا ہے ، اس لئے کہ لطیف ہے اس آیت سے قیامت میں عدم رؤیت کا ثبوت نہیں ملتا ، قرآن حکیم میں نص موجود ہے ، (آیت) ” وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ “۔ یعنی کچھ خوش بخت چہرے ایسے بھی ہوں گے جو اس کے دیدار سے محروم نہیں رہیں گے ، مقصد یہ نہیں کہ اس وقت ہم اللہ تعالیٰ کو ویسے ہی دیکھیں گے جیسے دنیا کی عام چیزوں کو دیکھتے ہیں بلکہ رؤیت سے مقصود یہ ہے کہ ہم وہاں عجیب ناقابل بیان مسرت حضور ہی محسوس کریں گے اور اس کی جلوہ آرائیوں سے آنکھیوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گے یہ تقرب و حضور کا انتہائی درجہ اور مقام ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہوگا ۔