وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ
اور تم ہمارے پاس اکیلے (90) آئے ہو، جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، اور وہ سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو جو ہم نے تمہیں دیا تھا، اور ہم تمہارے ساتھ (آج) ان سفارشیوں کو نہیں دیکھ رہے ہیں جن کے بارے میں تمہارا خیال تھا کہ وہ (تمہاری پرورش و پرداخت میں) اللہ کے شریک ہیں، تمہارے آپس کے رشتے ٹوٹ گئے، اور تمہارا خیال بالکل غلط نکلا
عبرتناک انجام : (ف ١) وہ لو جو دنیا میں اللہ کو بھول جاتے ہیں اور دنیا کی دلفریبیاں انہیں غفلت وانکار پر مجبور کردیتی ہیں اور وہ جو مقدس سہاروں کے بل پر زندہ ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد ہمارے شرکاء اور معبود ہمیں خدا کے عذاب سے بچائیں گے ، انہیں اس عبرتناک انجام پر غور کرنا چاہئے کہ وہ تنہا خدا کے حضور میں جائیں گے ، جاہ وحشم کے تمام سامان یہیں رہ جائیں گے ، آسائش وتکلفات ان کا ساتھ نہیں دیں گے ، اور وہ معبود اور سفارشی جن پر ان کا بہت دعوی ہے صاف مکرجائیں گے ، کوئی رشتہ ارادت اور تعلق نیاز مندی باقی نہیں رہے گا (آیت) ” لقد تقطع بینکم “ کا منظر ہوگا ، شیوخ بدعت اور پیران بدکردار مریدوں سے بھاگیں گے اور مرید ہوں گے کہ لپک لپک کر آگے بڑھیں گے ، اس وقت کتنا حسرتناک منظر ہوگا ،