وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ
اور ان لوگوں نے اللہ کی حقیقی قدر و منزلت (85) کو نہیں پہچانا، جب کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری ہے، آپ کہئے کہ وہ کتاب کس نے اتاری تھی جسے موسیٰ لے کر آئے تھے، جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت کا ذریعہ تھی، تم نے اس کے کچھ اوراق بنا رکھے ہیں جنہیں ظاہر کرتے ہو، اور اس کا زیادہ حصہ چھپاتے ہو، اور تمہیں وہ کچھ سکھایا گیا (86) جو تم اور تمہارے آباء و اجداد نہیں جانتے تھے، آپ کہئے کہ اللہ نے اتاری تھی، پھر انہیں چھوڑ دیجئے، اپنی مخالف اسلام باتوں سے کھیلتے رہیں
﴿مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ﴾: (ف3) سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے سب کو اسی نے خلعت حیات سے نوازا ہے ، اسی نے زندہ رکھا اور زندگی کے لوازمات پورے کئے وہی سنتا ہے ، وہی جانتا ہے ۔ دکھ ، درد اور تکلیف ومصیبت میں اسی کی کارسازی بروئے کار آتی ہے ، وہ نہ چاہے تو دنیا میں پتہ نہ ہل سکے ، یہ سب اس کے انعامات ہیں ، مگر انسان ہے کہ اسے نہیں پہچانتا ۔ ﴿حَقَّ قَدْرِهِ﴾: سے یہ مقصود نہیں ہے کہ اللہ کی معرفت کی کوئی حد ہے کس کے بس میں ہے کہ وہ باندازہ نعمت اس کا شکریہ ادا کرسکے ؟ ایک ایک سانس جو ہم لیتے ہیں ہزار در ہزار نعمتوں کا مرہون منت ہے پھر انسان کے لئے یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس کی تعریف وستائش سے کما حقہ عہدہ برآہو سکے ، غرض یہ ہے کہ تم جو کچھ اور جس حد تک کرسکتے ہو ، اس سے تو دریغ نہ کرو یہ تو بالکل سہل اور ممکن ہے ، کہ تمہارا سر کسی دوسرے کے آستانے پر نہ جھکے ، تم شرک سے باز آجاؤ اور ایک اللہ سے تعلق خاطر رکھو ۔ اس کے تشکر کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرو ، کیونکہ وہ شخص جو اللہ کے حکموں کو نہیں مانتا وہ اس کی ربوبیت کی نعمتوں سے ناآشنا ہے، حل لغات : قَرَاطِيسَ: جمع قرطاس بمعنی کاغذ ، ورق :