وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
اور آپ ان لوگوں کو چھوڑ (64) دیجئے جنہوں نے لہو و لعب کو اپنا دین بنا لیا ہے، اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے، اور آپ قرآن کے ذریعہ نصیحت کرتے رہئے کہ کہیں کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے ہلاک و بربادی کی طرف نہ دھکیل دیا جائے، اس کا اللہ کے سوا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی، اور اگر وہ ہر قسم کا معاوضہ دے گا تو اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے اعمال کی وجہ سے ہلاکت کی طرف دھکیل دئیے گئے، ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا گرم پانی ہوگا، اور ان کے کفر کی وجہ سے انہیں دردناک عذاب دیا جائے گا
دین کو کھیل نہ سمجھو ! (ف ٣) غرض یہ ہے کہ دین کا احترام ضروری ہے یہود ونصاری کی طرح نہ ہوجاؤ جن کے دلوں میں مذہب ایک غیر ضروری مشغلہ کی حیثیت سے زیادہ نہیں ۔ (آیت) ” ولا شفیع “۔ سے شفاعت مطلقہ کی تردید مقصود ہے ‘ یعنی غیر مشروط شفاعت ، اہل باطل کا خیال تھا کہ چونکہ ہم انبیاء کی جانب منسوب ہیں ، اور اس انتساب پر نازاں ہیں اس لئے شفاعت قطعی ہوگی ، مکہ کے مشرک یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے بت ، ہمارے اولیاء اللہ پر دباؤ ڈال کر ہمیں بخشوائیں گے قرآن حکیم نے اس نوع کی سفارش کو ممنوع اور ناجائز قرار دیا ، اور بالکل مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ حل لغات : الذکری : مصدر ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی یاد آنے کے بعد نہ بیٹھو ، ان تبسل : مادہ بسل بمعنی روکنا ، محروم رکھنا ، حمیم : کھولتا ہوا پانی ۔