سورة الانعام - آیت 35

وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور اگر ان لوگوں کی (حق سے) روگردانی (38) آپ پر گراں گذرتی ہے، تو آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان کی طرف کوئی سیڑھی ڈھونڈ لیں، پھر ان کے لئے کوئی نشانی لے آئیں (تو کیجئے) اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر اکٹھا کردیتا، پس آپ نادانوں میں سے نہ بن جائیے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف2) ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (ﷺ) شفقت نبوی سے مجبور ہو کر چاہتے ہیں کہ مکے والوں کو اتمام حجت کے لئے وہ سب کچھ دکھایا جائے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں ، یعنی خوارق ومعجزات اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ نہایت غلط ذہنیت ہے ، ہم معجزہ طلبی کی اس روح کو پسند نہیں کرتے ، ہمارے لئے سب کچھ ممکن ہے اور کوئی معجزہ یا نشانی ہمارے احاطہ قدرت سے باہر نہیں ، مگر یہ کیا ضرور ہے کہ ان کی ہر خواہش پر قدرت کے قوانین بدل جائیں ۔ اور بات یہ ہے کہ یہ چونکہ روحانی طور پر مردہ ہوچکے ہیں ، اس لئے قطعا سزاوار التفات نہیں ﴿إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ﴾ سے غرض یہ ہے کہ آپ اپنی سی کر دیکھیں ان کی ہر خواہش اور ہر مطالبہ کا احترام کریں ، یہ جب بھی نہیں مانیں گے ، ﴿وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى﴾سے مقصود اللہ کے اس ہمہ گیر قانون کی جانب توجہ دلانا ہے کہ اختلاف ناگزیر ہے ، اس لئے آپ ناحق جان کو ان کی محبت میں تکلیف نہ پہنچائیں ۔ حل لغات : نَفَق: سوراخ راہ ،