الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ ۘ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
جنہیں میں نے ماضی میں کتاب دی تھی وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا ہی پہچانتے (23) ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، جن لوگوں نے (ایمان و عمل کے اعتبار سے) اپنا خسارہ کرلیا، وہ ایمان نہیں لائیں گے
آفتاب نبوت کی درخشانی : (ف ١) اہل کتاب کا جذبہ کتمان حق مشہور ہے اس آیت میں اسی چیز کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی ان کو سابقہ پیشگوئیوں کی وجہ سے یقین ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے سچے اور موعود نبی ہیں ، اور یہ علم اس درجہ واثق اور غیر مشکوک ہے ، جب طرح ایک باپ کو اپنے بیٹے کے متعلق ، مگر محض ضد اور حبیت نفس کی وجہ سے نہیں مانتے ، (آیت) ” کما یعرفون ابنآء ھم “ ۔ سے غرض یہ بھی ہے کہ وہ وجدانی طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق قطعی علم رکھتے ہیں اس طرح ایک باپ کو اپنے بیٹے کے لئے یہ یقین کرتا ہے اور وہ اسے بیٹا کہنے کے لئے خارجی دلائل کا محتاج نہیں ہوتا ، بلکہ دل کے اندر ایک پدرانہ محبت اور کشش پاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسے اپنا بیٹا سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، اسی طرح یہ لوگ دل میں وجدانی طور پر محسوس کرتے ہیں ، کہ آفتاب نبوت کی شعاعیں ہیں ، جو قلب کے تاریک گوشوں کو روشن کر رہی ہیں ، مگر بربنائے تعصب نہیں مانتے ، دل گواہ ہے واقعات شہادت دیتے ہیں پہلی کتابوں کا حرف حرف اور شوشہ شوشہ اعلان کر رہا ہے مگر یہ نہیں سنتے ، اس لئے ظالم ہیں ، اور جان لیں کہ انہیں کامیابی نہیں ہوگی ، دل کی یہ آواز لبوں تک آئے گی ، اور پھر کائنات کے تمام گوشوں میں پہنچے گی ، اس لئے کہ صداقت بجائے خود شہادت ہے ، اور دلیل سچائی میں پھیل جانے اور مقبول ہوجانے کی قدرتی استعداد ہے ۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب : بہرحال منکر رہیں گے :