مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
میں تو ان سے وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا، کہ (اے اللہ کے بندو !) تم لوگ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تم سب کا رب ہے، اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان کے اعمال پر شاہد رہا، پس جب تو نے مجھے (143) لیا تو اس کے بعد تو ہی ان کے اعمال سے باخبر رہا، اور تو ہر چیز کا نگہبان ہے
میسح کی تعلیم : (ف ١) ان آیات میں قیامت کا ذکر ہے مسیح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا ، کیا تم نے کہا تھا کہ مجھے اور میری مان کو خدا مانو ، آپ فرمائیں گے ، اللہ مجھے کیونکر اختیار ہے کہ باطل کی تلقین کروں ، میں نے تو ان کو ہمیشہ توحید ہی کی طرف بلایا ہے ، اور میں جب تک ان میں رہا ، اسی کی دعوت دی جب تونے مجھے اٹھا لیا ، اس وقت تو نگہبان تھا ، اور تو سب کچھ جانتا ہے ۔ یہاں تک معذرت ہے اس کے سفارش ہے کیونکہ مسیح (علیہ السلام) خوب جانتے ہیں کہ میرے آسمان پر جانے کے بعد لوگوں میں غلط کے عقائد رائج ہوگئے تھے ، فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اگر انہیں سزا دے تو تیرے بندے ہی تو ہیں ، اور بخشدے تو کیا مضائقہ ہے ، تو عزیز اور حکیم ہے یعنی اگر بخشدے تو تجھے کوئی روک سکتا ، اور تو جانتا ہے کہ انسان غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے ، دبے الفاظ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے لئے مغفرت کی خواہش کا اظہار کیا ، یہاں چند باتیں ملحوظ رہیں : ١۔ عیسائی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک گروہ ایسا تھا ، جو مریم کی الوہیت کا قوئل تھا ، سب غالبا ایسا کوئی فرقہ موجود نہیں ۔ ٢۔ اس مقام پر ایک فریق دھوکا دیتا ہے اور کہتا ہے دیکھئے مسیح (علیہ السلام) نے انکار کیا ہے ، اور کہا ہے میرے سامنے کسی شخص نے مجھے خدا نہیں کہا ، حالانکہ اگر اس کی دوبارہ آمد کا مسئلہ صحیح ہے تو اسے یقینا معلوم ہونا چاہئے ، کہ عیسائی اسے خدا سمجھتے ہیں ، ورنہ لازم آتا ہے کہ خدانخواستہ مسیح (علیہ السلام) جھوٹ بول رہے ہیں ، جواب یہ ہے مسیح (علیہ السلام) سے سوال صرف یہ کہا گیا ہے کہ کیا تم نے اس طرح کے عقیدے کی تلقین کی وہ فرماتے ہیں نہیں یہ پوچھا ہی نہیں گیا کہ کیا تم اس واقعہ کے متعلق کچھ جانتے بھی ہوں یا نہیں ؟ اور (آیت) ” ان نعذبھم فانھم عبادک “ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ، کہ مسیح اپنے علم کا انکار نہیں کرتے ، بلکہ وبے الفاظ میں اقرار کرتے ہیں کہ مجھے علم ہے ، ٣۔ نیز (آیت) ” ما دمت فھم “۔ سے معلوم ہوتا ہے ، مسیح (علیہ السلام) کی زندگی کے دو حصے ہیں ، ایک وہ جو انہوں نے بنی اسرائیل میں رہ کر گزارا ، اور ایک وہ جبکہ وہ ان میں موجود نہیں تھے ، بہرحال مقصد یہ ہے کہ عیسائیوں کو ڈانٹ دیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم توحید ہے ، نہ کہ تثلیث ۔