يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ
اے ایمان والو, اگر تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب (131) آجائے، تو وصیت کرتے وقت آپس میں گواہی کے لیے مسلمانوں میں سے دو معتبر آدمی کو گواہ بنا لو، اور اگر تم حالت سفر میں ہو، اور موت کی مصیبت سے دوچار ہوجاؤ تو غیر مسلموں میں سے دو گواہ بنا لو، دونوں کو نماز کے بعد روک لوگے، پھر اگر تمہیں ان دونوں کی سچائی میں شبہ ہوگا، تو وہ (دونوں) اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم اس قسم کے ذریعہ کوئی فائدہ نہیں حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگرچہ (جس کے لیے گواہی دی جا رہی ہے) وہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپاتے ہیں، ورنہ ہم بے شک گنہگاروں میں سے ہوجائیں گے
(ف ٢) اس سے پیشتر کی آیت میں حفظ مال کا ، واقعہ یہ ہے کہ تمیم انصاری اور اس کا بھائی تجارت کی غرض سے ملک شام کی جانب نکلے ، اس کے ساتھ بدیل عمرو بن عاص کا غلام بھی تھا ، جو مسلمان تھا راستے میں بدیل یکایک بیمار ہوگیا ، اس لئے احتیاطا اس نے اپنے سامان کی ایک فہرست مرتب کرلی ، اور وصیت کی کہ اگر میں مرجاؤں تو میری چیزیں میرے گھر پہنچا دینا ، چنانچہ وہ مر گیا ، اور ان کی نیت میں فرق آگیا ، کچھ چیزیں انہوں نے دیں اور کچھ رکھ لیں ، اتفاقا چیزوں کی فہرست جو انہوں نے دیکھی تو خیانت ظاہر ہوگئی مقدمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو پیش ہوا ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ حل لغات : شھادۃ : گواہی ، عثر : معلوم ہوجائے ، عام طور پر مجہول استعمال ہوتا ہے ۔