تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ
آپ ان میں سے بہتوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اہل کفر کو اپنا دوست بناتے ہیں، انہوں نے اپنے لئے جو کچھ آگے بھیج دیا ہے وہ برا ہے، (جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ) اللہ ان سے ناراض ہوا، اور وہ ہمیشہ کے لئے عذاب میں رہیں گے
(ف3) ان دو آیتوں میں بیان فرمایا ہے کہ یہودی باوصف اہل کتاب ہونے کے اور بہت سی باتوں میں مسلمانوں کے ساتھ اشتراک رکھنے کے کفار کے زیادہ دوست ہیں ، حالانکہ ان کے تعلقات مسلمانوں سے کہیں مضبوط ہونے چاہئیں ۔ بات یہ ہے کہ یہود کو اسلام کی دشمنی نے اندھا کر رکھا تھا وہ بغض وحسد سے برے اور بھلے میں کوئی تمیز نہ کرسکتے تھے اور فسق وفجور کی وجہ سے انکی مذہبی حس مردہ ہوچکی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ خدا کی ناراضگی اور عذاب مخلد کے مستحق ٹھہرے ۔