إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
بے شک اہل ایمان اور یہود اور بے دین اور انصاری، ان میں سے جو لوگ (96) بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائیں گے، اور عمل صالح کریں گے، انیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی غم
من امن باللہ : (ف ١) آیت کے عموم سے بعض روشن خیال لوگوں نے دھوکا کھایا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ اسلام صرف ایمان وعمل صالح کا نام ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ماننا ضروری نہیں مگر یہ عقیدہ بوجوہ غلط اور گمراہ کن ہے ۔ ١۔ اس لئے کہ قرآن حکیم نے ایک مستقل نظام حیات پیش کیا ہے جس میں عقائد سے لے کر اعمال کی جزئیات پر تک تلقین کی ہے اور جو تمام انسانی ضروریات پر حاوی ومشتمل ہے صرف عقائد وتوحید کا نام اسلام نہیں کہ مذکورہ بالا عقیدہ کو درست تسلیم کرلیا جائے ۔ ٢۔ قرآن حکیم ایک مرتب اور مربوط کلام ہے اس میں سیاق کا خیال نہ رکھنا انتہا درجہ کی گمراہی ہے ، بیشتر کی آیات میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ قرآن حکیم کو نہ ماننے والے کافر ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افسوس نہ کریں (آیت ) ” فلا تاس علی القوم الکفرین “۔ ٣۔ ایمان باللہ کے معنی قرآن حکیم کی اصطلاح میں اسلام کو اس کی کامل شکل میں ماننے کے ہیں نہ کہ سرسری عقیدہ توحید کے کیونکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے کمال وتفصیل کے ساتھ ایمان کی تشریح فرمائی ہے ، دیکھئے وہ مقامات جہاں ایمان باللہ کا ذکر ہے ، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ خدائے تعالیٰ مومن باللہ سے وہی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں جو ایک مصلح مسلمان سے کی جا سکتی ہیں ۔ ٤۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس قدر تاکید ہے اور اس کے انکار پر صاف صاف وعیدیں ہیں کہ تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ۔