سورة المآئدہ - آیت 66

وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر وہ تورات و انجیل اور اس (قرآن) پر عمل پیرا (92) ہوتے جو ان کے رب کی طرف سے ان کے لیے نازل کیا گیا ہے، تو اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے روزی پاتے، ان میں سے ایک جماعت (93) راہ اعتدال پر چلنے والی ہے، اور ان میں سے بہتوں کے کرتوت برے ہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کو اقامت دین کے لئے دعوت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر تم صحیح معنوں میں اہل کتاب ہوجاؤ اور اپنے اعمال سے ثابت کر دو کہ تمہیں دینداری سے بہرہ وافر ملا ہے تو اللہ کی بخششوں کے دروازے کھل جائیں گے ، یعنی ایک طرف اخروی زندگی میں (آیت) ” جنت ونعیم “۔ کے مزے ہیں اور دوسری طرف دنیا میں رزق وعیش کی فراوانی ، مقصد یہ ہے کہ دیندار انسان کسی طرح بھی گھاٹے میں نہیں رہتا ، دنیا وعاقب دونوں جہان کی بشارتیں اس کے لئے مخصوص ہیں ۔ (آیت) ” وما انزل الیہم “ کی تعمیم میں قرآن اور اس کی تمام صداقتیں داخل ہیں ۔ کیونکہ اس وقت تک توریت وانجیل پر عمل نہیں ہو سکتا ، جب تک اس صداقت مشہود کا اقرار نہ کیا جائے جس کا نام قرآن ہے ۔ حل لغات : (آیت) ” الی یوم القیمۃ “۔ کنایہ ہے مدت دید سے ، مراد تابید نہیں ، کیونکہ ایک وقت آئے گا جب سب لوگ اسلامی ہدایات کو قبول کریں گے اور دنیا میں کوئی تفرقہ باقی نہیں رہے گا ۔ ارجلھم : جمع رجل ۔ پاؤں ۔ مقتصدۃ : اعتدال پسند یعنی مسلمان ۔