وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ
اور جب تم نماز کے لیے بلاتے ہو، تو اس کا مذاق اور تماشہ (81) بناتے ہیں، یہ اس لیے کہ وہ لوگ عقل و خرد سے بے بہرہ ہیں
(ف ٢) مکے میں جہاں ماننے والے مخلص ایمان دار موجود تھے ، وہاں وہ بھی تھے جو شعائر دین کا مضحکہ اڑاتے ، جب اذان ہوتی اور بندگان خدا کو پیش گاہ عزت وجلال میں دعوت عبادت ونیاز مندی دی جاتی تو ہنستے اور کہتے ، دیکھنے مسلمانوں کی عبادت کتنی خندہ آفرین ہے یعنی رکوع وسجود اور تسبیح وتہلیل کا یہ شان دار مظاہرہ جسے قرآن کی اصطلاح میں صلوۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کے لئے ناقابل فہم عمل تھا ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے جو لوگ اس نوع کے بد ذوق ہیں اور ایمان واتقاء کی نعمتوں سے انکے دامن یکسر خالی ہیں ‘ ہرگز اس قابل نہیں کہ مسلمانوں کے لئے کوئی جاذبیت اپنے اندر پیدا کرسکیں اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کی صحبت و دوستی سے پرہیز کریں تاکہ نفاق ومداہنت کی باتین سن سن کر ان کی حس مذہبی مردہ نہ ہوجائے ،