سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
یہ لوگ جھوٹ بولنے کے لیے دوسرے کی باتوں پر کان لگاتے ہیں، اور بڑے حرام (58) کھانے والے ہیں، پس اگر وہ لوگ آپ کے پاس آویں تو ان کے درمیان فیصلہ کردیجئے یا ان سے منہ پھیر لیجئے، اور اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں گے تو وہ آپ کا کچھ بھی بگاء نہ سکیں گے، اور اگر آپ فیصلہ کیجئے تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئے، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
قضیہ تحکیم : (ف ١) یہودی پستی اور ذلت کی اس حد تک پہنچ چکے تھے جہاں احکام الہی کا وقار باقی نہیں رہتا اور طبیعتیں مداہنت وتحریف کی طرف مائل ہوجاتی ہیں اور جہاں مذہب کا مقصود محض ریاکاری اور فریب رہ جاتا ہے ، اس لئے جب ان میں کا کوئی معزز آدمی گناہ کا ارتکاب کرتا تو یہودی علماء تورات میں تحریف معنوی سے کام لیتے اور کہتے ، اس جرم کی سزا زیادہ سنگین نہیں اور جب کوئی غریب اور بےکس انسان بتقاضائے بشریت بھول چوک سے دو چار ہوجاتا تو ان کا جذبہ علم وقضا پورے جوش میں آجاتا ، اور اسے سنگین سے سنگین سزا دیتے ، قصہ یہ ہوا کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا اور جھگڑے نے طول کھینچا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک قریظی مارا گیا ، بنو قریظہ کا مطالبہ یہ تھا کہ اس کے معاوضے میں یا تو قتل کی اجازت دی جائے اور یا ودیت دلائی جائے ، بنو نضیر چونکہ ان سے نسبتا زیادہ معزز تھے اس لئے رعایت کے طالب ہوئے ، علماء یہود نے بنی نضیر کا ساتھ دیا اور کہ ہمارا فیصلہ بالکل درست ہے شک ہو تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم بنالو ۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تخاطب ہے کہ اگر آپ کے پاس یہ لوگ فیصلہ لائیں تو انہیں ہرگز کسی جانب داری کی توقع نہ رکھنی چاہئے آپ صاف صاف بےلاگ فیصلہ کردیں ، مقصود یہ ہے کہ خدا کا نبی تمہاری مداہنتوں اور منافقتوں کا ساتھ نہیں دے گا ۔