يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے اہل کتاب ! ایک مدت تک سلسلہ انبیاء کے انقطاع کے بعد ہمارے رسول (39) تمہارے پاس آگئے، جو (ہمارے احکام) تمہارے سامنے صاف صاف بیان کرتے ہیں (تاکہ ایسا نہ ہو کہ) تم کہنے لگو کہ ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آیا ہی نہیں تھا، پس تمہارے پاس ایک خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
(ف ١) فترۃ کے معنی السکون بعد الحدۃ کے ہیں ، یعنی مسیح (علیہ السلام) تک دمادم رسو آتے رہے اور تقریبا ساڑھے چھ سو سال تک پھر کسی کو خلعت بعثت سے نہیں نوازا گیا ، مقصد یہ تھا کہ عالم انسانیت پر پوری تاریکی چھا جائے اور لوگ بےچینی اور اضطراب کے ساتھ اس آفتاب نبوت کا انتظار کریں جو ایک دم آکر کفر وحبل کی تاریکیوں کو روشنی ونور سے بدل دے ۔