لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
یقیناً وہ لوگ کافر (37) ہوگئے جنہوں نے کہا کہ بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی جانب سے پھر کس کو کچھ بھی اختیار حاصل ہے، کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم اور اس کی ماں اور تمام اہل زمین کو ہلاک کرنا چاہے (تو وہ آڑے آجائے) اور آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک صرف اللہ ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
(ف ١) مقصد یہ ہے کہ مسیح ابن مریم علیہا السلام کو اقنوم اور خدا ماننا نرا وہم اور کفر ہے کوئی سمجھ دار انسان اس عقیدے کو قبول نہیں کرسکتا ، کیونکہ خدا ساری دنیا کا مالک ہے ، چاہے تو چشم زدن میں مسیح (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کے ماننے والے تمام لوگوں کو تباہ کر دے اس کی شان جلالی کے سامنے کون ہے جواب کشائی کرسکے ۔ کیا اس کے بنائے ہوئے قانون ہمہ گیر نہیں ؟ کیا یہ درست نہیں کہ مسیح (علیہ السلام) بھی باوجود دعوئے پیغمبری ومصطفائی کے اس کے بنائے ہوئے تمام قاعدوں کا پابند ہے ، جو مسیح (علیہ السلام) ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے کھاتا اور پیتا ہے اور سارے حوائج بشری سے متصف ہے اور جو ہمہ احتیاج ہے وہ بےنیاز کیسے ہو سکتا ہے ؟ اسے رب اور اقنوم اول کیونکر کہا جائے ۔ بات یہ ہے کہ عقیدت ونیاز مندی میں غلو کی وجہ سے لوگوں نے مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا شریک وسہیم قرار دیا ورنہ وہ خود ہمیشہ ” عبودیت “ اور ” غلامی “ پر ہی نازاں رہے ۔ دوسری صدی مسیحی تک لوگ توحید کے قائل رہے ۔ تیسری صدی مسیحی ہیں جب قسطنطین اعظم بعض سیاسی مصالح کی بنا پر عیسائی ہوگیا تو رومی علم اوصنام کے شیوع کے باعث عیسائی لٹریچر میں تثلیث واقانیم کی بحثیں آنے لگیں اور پھر آہستہ آہستہ تثلیث کو مذہبی عقیدہ قرار دے دیا گیا ۔