وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اور جن لوگوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں، ہم نے ان سے بھی عہد (35) لیا تھا، تو جن باتوں کی انہیں نصیحت کی گئی تھی ان کا ایک بڑا حصہ فراموش کر بیٹھے، پھر ہم نے ان کے درمیان تاقیامت بغض و عداوت پیدا کردی، اور عنقریب اللہ انہیں ان کے کئے کی خبر دے گا
اغراء عداوت : (ف1) عیسائی بھی یہودیوں کی طرح اصل پیغام کو چھوڑ بیٹھے اور لاطائل بت پرستانہ مسائل میں الجھ گئے اور مذہب یہ قرار دیا کہ یہودیوں کی مخالفت کی جائے نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی بھی عیسائیوں کے خلاف دل میں کینہ اور بغض رکھنے لگے ۔ قرآن کریم نے اس آویزش کا نام اغراء عداوت وبغض رکھا ہے ۔ ﴿إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾سے مراد یہ نہیں کہ یہ دونوں قیامت تک باقی بھی رہیں گے بلکہ مدت سے کنایہ ہے کیونکہ ﴿لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ﴾ کے ماتحت ایک وقت آئے گا جب کہ اسلام کی عالم افروزروشنی ساری دنیا کو جگمگا دے گی ۔ حل لغات: الْبَغْضَاءَ: دشمنی ۔