أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
حقیقت معنوں میں وہی لوگ کافر ہیں، اور ہم نے کافروں (143) کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے
(ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ وہ لوگ جو تفریق وکفر کے حامی ہیں ‘ دراصل اور حقیقتا کفر کا مصداق ہیں کیونکر اسلام نام ہے آئین فطرت کا اور حقائق ومحسوسات کا اور پیغمبر کہتے ہیں ترجمان رحمن کو ، اس لئے اس میں کسی تفریق واصلاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ، جس طرح سے سورج ایک ہے ، آسمان ایک ہے اسی طرح ادیان مختلفہ میں وحدت ویکسانی ہے البتہ حالات وظروف کے اختلاف وتضاد کی وجہ سے ہمیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پیغام انتقام مسیح ناصری کے پیغام عفو سے الگ اور جدا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ مقصد ومصداق کے لحاظ سے دونوں ایک ہیں دونوں کا مقصد اصلاح نفس وانسانیت ہے ۔ سارے مذاہب اور سارے پیغمبر اس لئے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے ہیں تاکہ افق انسانیت کو زیادہ سے زیادہ تابندہ وروشن بنا دیا جائے سب کا موضوع اصلی اور مقصود انسان کی خدمت ورہنمائی ہے پس یہ کس درجہ ظلم وجہل ہے کہ اس سلسلہ کے ایک مؤید کو تو مانا جائے اور دوسروں کا انکار کردیا جائے ۔ اسلام کہتا ہے کہ تعصب وجہالت کو چھوڑ دو اور یہ جان لو کہ صداقت ہمہ گیر ہے ، اللہ کی رحمتیں ہرگز گوشہ زمین پر پھیلی ہوئی ہیں ، جس عقیدت اور نیاز مندی سے تم موسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہو اسی طرح محبت وشیفتگی سے مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لاؤ اور جس طرح تمہارے ہاں مسیح ناصری فخر ومباحات کے اہل ہیں ‘ اسی طرح تمام پیغمبرانہ ستائشوں اور تعریفوں کے حامل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ تم سب کو یکساں اللہ کی جانب سے تصور کرو اور ہر تعصب وتخرب کا خاتمہ کرو ۔ حل لغات : السوئ: برائی ۔ عفو : بخشش وعفو کا بحربیکراں ۔