فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ
لیکن انسان کو جب اس کا رب آزماتا (٧) ہے، پس اسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمت سے نوازتا ہے، تو کہتا ہے کہ میرے رب نے میرا اکرام کیا ہے
انسانی تنگ ظرفی ف 1: قرآن حکیم کی خصوصیت ہے کہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں انسانی نفسیات تک پر بحث کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ اس کی لغزش اور گمراہی کے منابع کون کون ہیں ۔ فرمایا کہ انسان کا دل اتنا چھوٹا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کو مال ودولت سے نوازتے ہیں تو پھر یہ آپے میں نہیں سماتا ۔ تبخیر اور غرور می ڈوب جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ پر میرے رب کا بڑا فضل ہے اور جب مال ودولت کو چھین لیتا ہے اور تنگی اور عسرت سے بسر ہونے لگتی ہے تو بےقرار ہوکر کہہ اٹھتا ہے کہ خدا نے میری بڑی توہین کی ہے ۔ گویا مال ودولت کے وقت اس نے اس کا صحیح استعمال کیا تھا ۔ اور اب چھن جانے پر اس درجہ متاسف ہے ۔ حالانکہ جب اس کے پاس سرمایہ تھا ۔ اس وقت یہ نفس کی ضروریات کو پورا کرتا تھا ۔ مگر مسکینوں اور حاجت مندوں کو کھانا کھلانے کی توفیق اسے کبھی مرحمت نہیں ہوئی ۔ بلکہ اس حرص وآز کی کیفیت یہ تھی کہ جو پاتا اور جہاں پاتا کھاجاتا ۔ اور اس میں جائز وناجائز کی کوئی تمیز روا نہ رکھتا اور دولت کا تو اسے عشق تھا ۔ حالانکہ یہ چاہیے تھا کہ دولت کے وقت حد سے زیادہ خوش نہ ہوتا اور اس کو اللہ کی امانت سمجھ کر مستحقین میں صرف کرتا اور جب اللہ تعالیٰ دولت سے محروم کردیتے ۔ اس وقت صبر اور شکر سے کام لیتا اور قناعت اختیار کرتا ۔ واضح رہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے مال ودولت کی محبت اگر اندازے کے مطابق ہو تو ممنوع نہیں ۔ بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے ۔ اگر اندازے سے زیادہ ہو اور بےجا غرور اور خواہشات نفس کی تکمیل کے جذبات پیدا کردے تو ناجائز اور ممنوع ہے ۔ فی نفسہٖ یہ چیز نہ بری ہے اور نہ اچھی ۔ اس کا اچھا استعمال محمود ہے اور برا استعمال مذموم ۔ فرمایا کہ منکرین یہاں سیم وزر کے انباروں پر نازوکبر کا اظہار کررہے ہیں ۔ مگر انہیں معلوم نہیں کہ قیامت کے دن جب فرشتے اس کے حضور میں صف بستہ کھڑے ہوں گے ۔ اس وقت ان کو احساس ہوگا کہ اے کاش دنیا میں ہم نے یہاں کے لئے کچھ بھیجا ہوتا *۔ حل لغات :۔ فقدرعلیہ رزقہ ۔ روزی کو اس پر تنگ کردیتا ہے * اکلالما ۔ یعنی سارے کا سارا کھاجاتے ہو ۔ لم کے معنی جمع کرنے کے ہیں ۔ شئی ملموم ای مجموع *۔