سورة الأعلى - آیت 19

صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یعنی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہمہ گیر صداقت ف 1: غرض یہ ہے کہ صداقت ہمہ گیر ہے ۔ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام نے بیک آواز جو چیز اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کے سامنے پیش کی ، وہ یہ تھی کہ کامیابی اسی شخص کے مقدر ہے جو پاکباز ہے ۔ جو خیال وفکر سے لے کر اعمال وجوارح تک پاکیزگی اور تقویٰ کو اپنا شعار بنالیتا ہے ۔ جس کا قلب پاک ہے ۔ جس کا خیال پاک ہے ۔ جس کا استدلال شوائب ضلالت سے پاک ہے اور جس کا عمل خلوص اور پاکیزگی ہے ۔ جو ہر آن اللہ کو یاد رکھتا ہے اور اپنی عقیدت ونیاز مندی کے جذبات کا اظہار کرتا ہے ۔ یعنی وہ جس کو ذوق عبادت بےقرار کردیتا ہے اور مجبور کرکے اس کے حضور میں کھڑا کردیتا ہے ۔ جس کی جبین اس کے آستانہ جلال پرجھکنے کے لئے ہر وقت بےتاب رہتی ہے اور جس کا دل حمدوستائش کے ترانوں سے گونجتا رہتا ہے جس کی زبان اس کے ذکر سے تازہ وشگفتہ رہتی ہے اور جس کی پوری زندگی ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ اس نے اپنی زندگی کے کسی حصہ میں اس کی یاد اور اس کے احکام کو فراموش نہیں کیا ۔ جو متاع دنیا کو ذلیل اور حقیر سمجھتا ہے اور آخرت کو جو دائمی اور واقعی ہے ، بہتر قرار دیتا ہے ۔ جس کے نقطہ نگاہ سے اصل چیز جو حصول اور تگ ودو کے قابل ہے ۔ وہ عقبیٰ کی نعمتیں ہیں دنیاکی احقر اور ارزل اشیاء نہیں ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مختلف انبیاء نے اپنے اپنے وقتوں میں بنی نوع انسان تک پہنچایا اور ان کے اخلاقی اور روحانی افق کو بلند اور تابناک بنانے کی کوشش کی *۔