إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا
بے شک ہم نے قرآن حق کے ساتھ نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اللہ کی دی ہوئی بصیرت کے مطابق فیصلہ (110) کریں، اور آپ خیانت کرنے والوں کی طرف سے دفاع کرنے والے نہ بن جائیے
قرآن حقائق محسوسہ کا نام ہے : (ف ٢) (آیت) ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق “ کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ افق اعلی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اقدس پر نازل ہوا ہے وہ حق یعنی قطعی صلت وصفا سے حالات وظروف کے بالکل مطابق ہے ، علوم ومحسوسات کے موافق ہے اور کوئی چیز اس میں غیر موزوں اور غیر متناسب نہیں ۔ (آیت) ” بما ارک اللہ “ ۔ سے مراد یہ ہے ‘ یہ قرآن حتما وسعت ومشاہدہ کے ہم پلہ ہے ، اس کی قطعیت میں کوئی احتمال شک وشبہ نہیں ، یہ محسوس حقیقت ہے جس کی تجلیات قلب اطہر پر جلوہ کناں ہیں ۔ (آیت) ” ولا تکن للخآئنین خصیما “۔ اور اس قبیل کی تمام آیات جو اس کے بعد مذکور ہیں ، منصب نبوت کی توضیح کے لئے ہیں یعنی بتانا یہ مقصود ہے کہ نبی دنیا میں سچا حکم ہو کر آتا ہے اس سے غدر وخیانت کی توقعات اس کے منصب کی توہین ہے وہ ہر وقت جانب باری سے طالب عفو وبرکات رہتا ہے ، وہ کبھی خائن اور جھوٹے گروہ کی حمایت نہیں کرتا ، مگر انداز بیان اس نوع کا اختیار ہے جس سے وہ لوگ جو قرآن کے اسالیب بیان کی حکمتوں اور لطافتوں سے واقف نہیں ‘ بدظن ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھئے آپ کے پیغمبر معصوم نہیں ۔ قرآن حکیم آپ کو استغفار دے رہا ہے وہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ عصمت ومحفوظیت تو شرط اول ہے ۔ کسی بشر کا عہدہ نبوت پر سرفراز ہونا اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب وہ لوگوں کو گناہوں سے پاک کرے گا اور معصوم بنائے گا (آیت) ” ویزکیھم “۔ کے عمل تطہیر سے دلوں کی پاکیزگی اور نیکی سے معمور کر دے گا ، اس لئے خود اس کے متعلق عصمت کا درجہ ثابت کرنا ایسا ہی ہے جیسے خدا کے لئے کامل علم وحکمت یا توحید : تفرید ۔ کیونکہ خدا تو کہتے ہی اس ذات والا صفات کو ہیں جو علیم وحکیم ہو اور جس کا کوئی شریک نہ ہو ۔ نبی کا اشتقاق نبوۃ سے ہے جس کے معنی رفعت اور بلندی کے ہیں ۔ یعنی وہ انسان جو عام انسانوں سے بہت بلند وارفع ہے ۔ اصل میں ان آیات میں ایک خاص واقع کی طرف اشارہ ہے ۔ طعمہ ایک شخص تھا جس نے ایک زرہ چرائی اور کہا کہ یہودی نے چرائی ہے اور مسلمانوں کی ایک جماعت کو آمادہ کرلیا کہ وہ اس کی برات کا اظہار کریں اور یہودی کو متہم ٹھہرائیں ۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی ، آپ متاتل رہے تاآنکہ یہ آیات نازل ہوئیں جس سے طعمہ اور اس کے گروہ کو کامل مایوسی ہوئی ۔