سورة النسآء - آیت 100

وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت (105) کرتا ہے، وہ زمین میں بہت سی پناہ کی جگہیں اور کشادگی پاتا ہے، اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کی نیت سے نکلتا ہے، پھر اس کی موت آجاتی ہے، تو اس کا اجر اللہ کے نزدیک ثابت ہوجاتا ہے، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) مراغم کا اشتقاق رغم سے ہے جس کے معنی خاک آلودہ کرنے کے ہیں ۔ علی رغم الف فلاں کا محاورہ اسی سے ماخوذ ہے ، یعنی مہاجرین جب ظلم واستبداد کے خلاف اجتجاج کرتے ہوئے ملک چھوڑ دیں گے تو انہیں ایسی جگہیں مل جائیں گی جو دشمنوں کی پائمالی اور تحقیر کا باعث بنیں گی اور جس کی وجہ سے ظالم وسرکش کا تمام کبر وغرور خاک میں مل جائے گا ۔ ہجرت کے معنی جہاں یہ ہیں کہ بطور احتجاج کے ظالم ومستبد حکومت کا ملک چھوڑ دیاجائے ، وہاں یہ بھی ہیں کہ مسلمان نہایت شریف النفس اور آزاد قوم ہے ضمیر ومذہب کی غلامی اس کے نزدیک بدترین گناہ ہے مسلمان اجنبی ممالک میں رہ کر تکلیف وتنگ دستی کے مصائب کو برداشت کرسکتا ہے مگر ایک لمحہ کی غلامی اس کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔ (آیت) ” فقد وقع اجرہ علی اللہ “۔ سے مراد یہ ہے کہ اصل میں جہاد و ہجرت کا تعلق قلب ودماغ کی بےچینی سے ہے ، وہ لوگ جو احساسات وخیالات میں کفر کے لئے سخت اضطراب ونفرت پنہاں رکھتے ہیں وہ مجاہد ہیں گو حالات انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کی اجازت نہ دیں ۔ حل لغات : عفو ۔ بدرجہ قصوی معاف کرنے والا ۔ مراغما : ایسی جگہ جو دشمنوں کے لئے باعث توہین وتحقیر ثابت ہو ۔