مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
آپ کو جو بھلائی (86) بھی پہنچتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے، اور جو برائی بھی پہنچتی ہے تو آپ کے کئے کا نتیجہ ہوتا ہے، اور ہم نے آپ کو لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ شاہد کے طور پر کافی ہے
رفع تناقض : (ف1) ان دو آیتوں میں بظاہر تناقض معلوم ہوتا ہے کہ مصائب کو من عند اللہ بھی کہا ہے اور من نفسک بھی ، مگر خدا کا کلام ہر تناقض وتعارض سے پاک ہے ، پہلی آیت سے تشاوم کی تردید مقصود ہے ، دوسری سے منشا یہ ہے کہ مصائب کے ذمہ دار خود انسان ہیں ، جہاں تک کسی واقعہ کے سبب اول کا تعلق ہے وہ ظاہر ہے خدا کے سوا اور کوئی نہیں اور جہاں اسباب قریبہ کا بیان ہے ‘ واضح ہو کہ وہ انسان خود پیدا کرتا ہے یعنی گوہر مصیبت خدا کی طرف سے ہے مگر ہم حاصل اسے خود اپنے عمل سے کرتے ہیں ۔ اس لئے حضور (ﷺ) کے آنے سے تم مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے ہو تو اس کی وجہ آپ (ﷺ) کی تشریف آوری نہیں ، تمہاری بدبختی اور انکار ہے ۔ حل لغات : حَسَنَةٍ سَيِّئَةٍ: نیکی اور برائی ، انعام اور مصیبت ۔