سورة الإنسان - آیت 9

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

( ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے کھلا رہے ہیں، ہم نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی کلمہ شکر

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کوائف جنت ف 2: کوائی جنت کے متعلق اصولی یہ سمجھ لینا چاہیے ۔ کہ یہ بقول حضرت ابن عباس کے محض اسماء ہیں جن کی حقیقت سے ہم آگاہ ہیں ۔ فلا تعلم نفس ماعق الھم من فوق اعین دانہ وہاں جو اہتمام ہے ۔ جو حسن ہے جو کمال ہے ۔ اور فیوض ہیں ۔ ان کو نہ زبان علم سے ادا کیا جاسکتا ہے اور نہ بشری طات ہے ۔ کہ ان کے الفاظ کو منتخب کرسکے ۔ مختصر الفاظ میں ساری جنت کا مفہوم یہ ہے ۔ کہ خدا خوش ہے ۔ اور وہ اپنے بندوں کو خوش کرنا چاہتا ہے ۔ اور جب وہ خوش ہو ۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ۔ جس نے ستاروں کو اور نجوم وکواکب کو بنایا ہے ۔ جس نے چاند کو روشنی بخشی ہے اور آفات کو ضیاء جس نے پھولوں میں خوشبورکھی ہے ۔ اور ٹہنیوں میں لچک وہ جب خوش ہو ۔ اور اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہے ۔ تو آپ ہی بتائیے کہ وہ اظہار کتنا خوبصورت کس درجہ ماحول اور کس درجہ حیرت انگیز ہوگا ۔ جنت مقام رضا ہے ۔ اس لئے یہاں کی یہ چیزیں نظاط اور مسرت کا ظہور ضروری ہے ۔ بعض لوگوں نے جنت کی ان کوائف کو سن کر اعتراض کیا ہے ۔ یہ کیسی جنت ہے جس میں یہ تمام وہی مزخرفات ہیں جو دنیا میں ہیں ؟ ان کو اولاً یہ معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ دنیا کی چیزوں اور انکا مقابلہ ہی کیا ہے ۔ یہ عارضی اور فانی وہ دائمی اور ابدی ، یہ ناقص وہ کامل ان میں تکدرت دینوی کا اندیشہ ان میں بالکل نہیں ۔ ثانیا یہ کیا ضورت ہے ۔ کہ نجات کے لئے ایسی دنیاکا ہونا زیبا ہو ۔ جہاں اس دنیا کی خواہات حد سے دنیا کی ضروریات نہ ہوں ۔ یہ خیال محض رہبانیت پر مبنی ہے ۔ ورنہ جہاں تک انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہر انسان دل کی گہرائیوں کے ساتھ یہ چاہتا ہے ۔ کہ وہ ایک ایسی دنیا میں چلا جائے ۔ جہاں غم نہ ہو ۔ فکرواندیشہ نہ ہو ۔ جہاں اپنے عزیزوں کو کوئی تکلیف نہ ہو ۔ جہاں ہمیشہ جوان رہیں ۔ جہاں تازگی اور مسرت کے پورے لوازم ہر آن موجود رہیں ۔ اور جہاں روح اور جسم کی تمام خوشیاں مہیا ہوں ۔ قرآن کہتا ہے ایسی دنیا موجود ہے ۔ اور اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے ۔ کہ اس دنیا میں اپنے ارادوں اور اپنی خواہشات کو اللہ کے تابع کردہ نتیجہ یہ ہوگا ۔ کہ اس دنیائے مسرت واجتہاج کو وہ تمہارے تابع کردیگا ۔ کہیے اس میں کوئی اعتراض کی بات ہے ۔ اصل میں یہ اعتراضات اس لئے نہ قابل التطبات ہیں کہ ان میں انسانی فطرت کی صحیح ترجمانی نہیں کی گئی ۔ یہ اوپر سے دل کی پیداوار ہیں ۔ اور ان کا مقصد یہ ہے ۔ کہ یہ معلوم کرلیا جائے ۔ کہ کیا واقعی اس طرح ہونے والا ہے ؟*۔ حل لغات :۔ بانیۃ ۔ جام ۔ برتن ۔ ظروف * اکواب ۔ کوب کی جمع ہے ۔ بےٹونٹی اور دستے کے آب خورے * تحواریرمن خفیہ یعنی وہ آنجورے ، چاندی اور شیشے کے مرکب سے بنائے جائیں گے ۔ زنجبیلا ۔ سونٹھ ۔ عرب اس مشروف کو پسند کرتے تھے ۔ جس میں سونٹی کی آمیزش ہو ۔ کیونکہ اس میں ذرا خوشگوار قسم کی تلخی پیدا ہوجاتی ہے ۔ سلسبیلا ۔ خوشگوار بہشت کیا یک چشمہ کانام ہے ۔ پانی کی صفائی اور روانی کی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا ہے * محاراون ۔ خدمت کے لئے ایسے بچے جو ہمیشہ بچے رہیں ۔ عام طور پر ان کو اس لئے پسد کیا جاتا ہے کہ یہ کام چشتی اور پھرتی سے کرتے ہیں ۔ مگر بڑوں کی طرح حریص اور طماع نہیں ہوتے ۔ نیز معلوم ہونے کی وجہ سے وہ خدمات کے لئے اس لئے بھی موزوں ہیں ۔ کہ ان کے آنے جانے میں اہل خانہ کو کوئی تکلف نہیں ہوتا ۔ لولورا منشور ۔ یعنی یہ خوبصورت بچے اہل جنت کے کاموں میں ابوہر میں کچھ اس طرح بکھرے ہوئے گے کہ ان پر موتیوں کا دھوکہ ہوگا *۔ حل لغات :۔ النذر ۔ فرائض یا واجبات ۔ لفظ نذر وفرائض ماجہات کے معنوں میں اس لئے استعمال کیا ہے ۔ تاکہ یہ معلوم ہو ۔ کہ اللہ کے پاکباز بندوں کی نگاہوں میں ان ادا کرنا کتنا ضروری ہے *۔ تصریۃ ۔ تروتازگی * زمھریر ۔ جاڑا ۔ سردی کی سختی ؟