وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت (77) کریں گے، وہ (جنت میں) ان کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، یعنی انبیاء اور صدیقین، اور شہداء اور صالحیں کے ساتھ، اور یہ لوگ بڑے اچھے ساتھی ہوں گے
حسن رفاقت (ف ١) آیت کے شان نزول میں معتدد واقعات بیان کئے جاتے ہیں ۔ ١۔ ثوبان (رض) کا اشتیاق رفاقت یعنی اس کا دریافت کرنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم بھی شرف زیارت سے اس وقت محفوظ ہو سکیں گے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ” مقام محمود “ کی بلندیاں مختص ہوں گی ؟ ثوبان (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک ادنی غلام تھے ۔ ٢۔ چند انصار کا پوچھنا کہ ہم کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت ورفاقت حاصل کرسکتے ہیں ؟ ٣۔ ایک عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصاری کا کہنا کہ حضور ! ہم اس دنیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ادنی سی مفارقت گوارا نہیں کرسکتے ، قیامت کے دن کیا ہوگا چہرہ انور سے اکتساب مسرت کا موقع کیونکر ملے گا ؟ ٤۔ عام مسلمانوں کا مطالبہ رفاقت وصحبت : مقصد بہرحال یہ ہے کہ جذبہ اطاعت سے سرشار مومنی کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں رفاقت کے بہترین درجہ اور مواقع ہیں اور ظاہر ہے صرف صحب ورفاقت ہی ایک گراں قیمت اعزاز ہے ، جو رب ودود کی طرف سے بخشا جائے گا ، یعنی وہ لوگ جو ” صلحائ“ کے درجہ علیا تک نہیں پہنچے ، بجز جذبہ اطاعت وحب صلاح صلحاء کے رفیق ہوں گے اور وہ صلحاء جنہیں مرتبہ ” صدیقیت “ حاصل نہیں ہوا ۔ اور وہ جو ” صدیق “ تو ہیں مگر جام شہادت نوش نہیں کیا ‘ وہ شوق شہادت کی وجہ سے شہداء کی پرانوار محبت سے استفادہ کرسکیں گے ۔ اور جو وہ شہید ہیں پرانبیاء کے مقام رفیع کو نہیں پایا ، انبیاء کے زمرہ عالی قدر میں رہیں گے ۔ جس طرح ستارے ماہتاب کے جلو میں رہنے سے ماہتاب نہیں بن جاتے اسی طرح محض رفاقت انہیں ان درجات پر فائز نہیں کرسکتی اور جس طرح باوجود رفاقت وصحبت کے انجم تاباں اور مہرمنیر میں ایک واضح فرق ہے ‘ اسی طرح ان مدارج میں ایک بین امتیاز باقی رہے گا ۔ یہاں اعطاء مدارج کاسوال نہیں ‘ اعطاء رفاقت کا ذکر ہے یہی وجہ ہے پہلے انبیاء کا ذکر فرمایا ہے ، حالانکہ اگر ذکر مراتب ومدارج کا ہوتا تو پہلے صلحاء کا ذکر چاہئے تھا اور (آیت) ” حسن اولئک رفیقا “۔ کے معنی تو ہرگز ہر گز کسی سلسلے کے متحمل نہیں ۔