بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ
بلکہ انسان اپنے آپ سے خوب باخبر ہے
ایک لطیف ربط ف 3: بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ کہہ دینے سے شبہ پیدا ہوسکتا تھا ۔ کہ جب اس عالم آخرت میں انسان میں ایسی بصیرت پیدا ہوسکتی ہے ۔ کہ اس کے تمام اعمال اس کے قلب میں مرقسم ہوجائیں ۔ اور ان نفوش کو معلوم کرلے ۔ جو ان اعمال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ اور حقیقت حال پر مطلع ہوجائے ۔ تو پھر اس دنیا میں یہ کیوں ممکن نہیں ہے ۔ اور کیوں ایسا نہیں ہوسکتا ۔ کہ یہاں کتاب فطرت کے درد سر کو لیں اور اس طرح وحی والہام کی ضرورت واحتیاج باقی نہ رہے ۔ فرمایا ۔ یہ ہمارے ذمہ ہے ۔ یہاں یہ چیز ممکن نہیں ہے کہ تم اپنی دفاعی کاوش اور محنت سے کسی نظام رشدوہدایت کو معلوم کرلو ۔ چنانچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جب آپ قرآن کی تلاوت فرمائیں سو سہج سہج سے یہ ہمارا کلام ہے کہ ہم اس کو آپ کے شینہ میں جمع کردیں ۔ اور آپ کو پڑھادیں بس جب ہم پڑھیں (فرشتہ کی وساطت سے) تو آپ بھی ساتھ پڑھتے جائیں اور اس پر یقین رکھیں کہ اس کی توضیح وتشریح بھی ہم کرینگے اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن بحیثیت مسکن کے مطاع ہے ۔ اسی طرح بحیثیت شرع کے مطاع ہے ۔ بحیثیت اور سندرہے *۔ حل لغات :۔ بنانہ ۔ آنکھوں کی پوریں * دزر ۔ پناہ *۔