سورة النسآء - آیت 65

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس آپ کے رب کی قسم، وہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل (74) نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں، اور پورے طور سے اسے تسلیم کرلیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حکم مطلق : (ف ١) اس آیت میں ربوبیت مطلقہ کی قسم کھا کر بیان کیا ہے کہ اطاعت رسول لازمی ولابدی شے ہے ، یعنی ربوبیت عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر حکم کے سامنے گردنیں جھک جائیں ، جب تک اطاعت وتسلیم کا رضا کارانہ جذبہ دلوں میں موجود نہ ہو ‘ ایمان ویقین کی شمع روشن نہیں ہو سکتی ۔ قرآن حکیم یہی نہیں فرماتا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی گردنوں کو جھکادو ‘ بلکہ وہ یہاں تک اس کی تائید وتوثیق فرماتا ہے کہ دل کے کسی گوشے میں بدعقیدگی کی تاریکی موجود نہ رہے ۔ یقین وثبات کے پورے جذبات کے ساتھ نیاز مندی وعقیدت کے تمام ولولوں کے ساتھ مومن کے لئے ضروری ہے کہ آستانہ رسالت پر جھک جائے ، یعنی جوارح واعضاء کے ساتھ دل کا کونا کونا ضیاء اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بقعہ نور بن جائے ، ورنہ الحاد زندقہ کا خطرہ ہے ۔ وہ لوگ جو قرآن کو تو بظاہر مانتے ہیں لیکن سنت واسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں ‘ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ نصوص قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں اور وہ اسلام کی اس عملی زندگی سے محروم ہیں جو اصل دین ہے ۔