وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
اور ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ کی اجازت سے اس کی اطاعت (72) کی جائے، اور اگر یہ لوگ، جب انہوں نے اپنے آپ پر ظلم (73) کیا، آپ کے پاس آتے، پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے، اور رسول ان کے لیے مغفرت طلب کرتے، تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت مہربان پاتے
رسول بجائے خود مطاع ہے : (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ منافقین اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر سچے دل سے طلب مغفرت کریں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے خلوص سے متاثر ہو کر ان کے لئے استغفار کرے تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیں گے ۔ یعنی جب تک ان کے خلوص پر مہر رسالت ثبت نہ ہو اور جب تک خدا کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نہ کہہ دے کہ یہ خالصۃ اب میرے ہمنوا ہوگئے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ انہیں عفو توبہ کا مستحق قرار نہیں دیتا ۔ (آیت) ” الا لیطاع باذن اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ رسول مطاع مطلق ہے ، اس کا وجود بجائے خود حجت وسند ہے ، اس کی ہر ادا صبغۃ اللہ میں رنگین ہوتی ہے ۔ اس کا ہر قول وفعل مستفاد ہوتا ہے منشائے الہی سے (آیت) ” وما ینطق من الھوی ان ھو الا وحی یوحی “۔ اس لئے یہ کہنا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات وافعال لازم اطاعت نہیں قرآن ناطق کی توہین ہے ۔ وہ لوگ جو منصب نبوت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ، کسی طرح بھی اسوہ حسنہ کو قرآن سے الگ کوئی چیز قرار نہیں دے سکتے ۔