أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
یا اللہ نے اپنے فضل سے لوگوں کو جو دیا ہے، اس پر حسد (61) کرتے ہیں، ہم نے تو آل ابراہیم کو بھی کتاب و حکمت دی تھی، اور انہیں ایک بڑی سلطنت بھی دی تھی
راز حیات : (ف ١) ان آیات میں یہودی بخل وحسد کا ذکر ہے کہ یہ قومیں اخلاق حسنہ سے بالکل عاری ہیں ، اسلام کا انکار بھی اسی جذبہ حسد وبخل کے ماتحت ہے ، یہ نہیں چاہتے کہ دنیا کی کوئی قوم سرفرازی وسربلندی سے مفتحز ہو ۔ اس بناء پر جب یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان خدا کے فضل وعنایات سے بہر کیف بہرہ ور ہیں اور دین ودنیا کی نعمتیں اور کرامتیں انہیں حاصل ہیں تو مارے حسد وبخل کے جل اٹھتے ہیں ، قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے آل ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی تمہارے سامن ہے ، کیا ہم نے انہیں کتاب وحکمت کے ساتھ ساتھ حکومت وخلافت نہیں بخشی اور کیا وہ وعظ وارشاد کے علاوہ تاج وتخت کے وارث نہیں تھے ؟ پھر تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے کہ مسلمانوں میں جب دنیا ودین کا اجتماع دیکھتے ہو تو چلا اٹھتے ہو ۔ یہ تو ہماری سنت وطریق ہے کہ جو قوم صحیح معنوں میں ہمارے پیغام کو سمجھ لیتی ہے ہم انہیں کتاب حکیم بھی دیتے ہیں اور فتح عظیم بھی ۔ بات یہ ہے کہ خدائی احکام وشریعت کا منشا صرف جذبہ نیاز مندی کا امتحان ہی نہیں ‘ بلکہ ہماری تمام قوتوں کو ابھارنا بھی ہے وہ قومیں جو اس راز حیات کو سمجھ لیتی ہیں ‘ ہمیشہ فراز ترقی تک پہنچ جاتی ہیں اور جن کے نزدیک مذہب محض جمود قسفل کا نام ہے وہ نکمے اور ذلیل رہتے ہیں ، خیرالقرون میں دیکھئے کہ ایک نکمی ، ذلیل اور جاہلی قوم انہیں نمازوں ، روزوں اور فرائض ونواہی سے ساری دنیا پر چھا جاتی ہے اور اس کی رگ رگ میں زندگی کا خون دوڑنے لگتا ہے ان کا دماغی افق اتنا بلند ہوجاتا ہے کہ اقبال حشمت کا آفتاب انہیں سجدہ کر کے طلوع ہوتا ہے ، ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ انہوں نے مذہب کی صحیح روح کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ، آج بھی اگر مسلمان اسلام کے صحیح روح کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ، آج بھی اگر مسلمان اسلام کے صحیح اور سلجھے ہوئے قانون کو مان لیں ، تو ان میں وہی پہلی زندگی پیدا ہو سکتی ہے ۔