مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ
وہ بلند درجات والے اللہ کی جانب سے ہے
سورہ المعارج ف 1: سال سائل سے یا تو کوئی ایک شخص مراد ہے ۔ جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے ۔ کہ نضرین حارث نے مطالبہ کیا تھا ۔ کہ وہ عذاب جس کا آپ وعدہ کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں ۔ کہ تکذیب کی صورت میں اس کا آنا ناگریز ہے ۔ وہ کیوں نہیں آتا ۔ وہ آئے اور ہم کو فنا کے گھاٹ اتاردے ۔ یا کوئی شخص مراد نہیں ہے ۔ بلکہ پوری قوم مراد ہے ۔ کہ نزول وعید کی پیشگوئی کو سن کر ان کے دلوں میں شکوک پیدا ہوئے ۔ اور انہوں نے ان شکوک کا مذکرہ ایک دوسرے سے کیا ۔ اس پر اس سورت میں سال سائل کے انداز میں جواب مرحمت فرمایا گیا * ب عذاب واقع میں (با) ظن کے معنے میں ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ بھی آئا ہے ۔ فاسئل بہ یچلوا حالانکہ غرض یہ کہ فاسئل عنہ خبیرا ۔ ایک شعر ہے ؎ فان تسئلونی با النساء فانطن بصیرا بارعاء النساء طبیب مقصد یہ ہے ۔ چونکہ بتقاضائے کرم وبخشش عذاب کے آنے میں تاخیر ہورہی ہے ۔ اس لئے یہ لوگ شک وارتعاب کا اظہار کررہے ہیں ۔ حالانکہ جس کے نوح میں کوئی استحالہ نہیں ۔ جب وہ آجائے گا ۔ اس کو دنیا کی کوئی قوت ہٹا نہیں سکتی ۔ نادان یہ نہیں سوچتے ۔ کہ جس خدا نے اس بزم رنگین کو سجایا ہے ۔ وہ اس کو برباد کردینے پر کیوں قادر نہیں ۔ اگر وہ چاہے کہ اس ساری کائنات کو بوجہ اس کی نافرمانیوں کے ہلاک کردے ۔ تو کون ہے ۔ جو اسکے اس ارادے میں مزاحم ہوسکے اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ وہ خدا جس کی جانب سے یہ عذاب آنے والا ہے ۔ وہ سراسر عفو وکرم کا مالکہے ۔ اس لئے وہ مہلت دیتا ہے ۔ اور تم ہو کہ اس کی مہربانی سے بالکل ناجائز استفادہ کرتے ہو ۔ حالانکہ اس کا تقاضا یہ ہونا چاہیے ۔ کہ تم لوگ ذیاممنونیت سے اس کے سامنے جھک جاؤ۔ اور اس کی حمدوثنا کے زمزموں سے عالم انسانی کو نج پیدا کردو *۔ باقی صفحہ حل لغات :۔ بدی المعارج ۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں ذی اسف انسل وقسعم ۔ یعنی صاحب بخشش وکرم * بعیدا ۔ عقل وامکان سے دور * حکیم ۔ دوست *۔