وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
اور نہ یہ کسی کا ہن کا قول ہے، تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو
ف 1: اسلام سے قبل عربوں میں شاعری اور کہانت کا بڑا زور تھا ۔ اس لئے انہوں نے جب قرآن کو دیکھا ۔ کہ اس میں بھی موسیقی اور اتر ہے ۔ سحیع اور ترنم ہے ۔ تو وہ یہ سمجھے کہ یہ بھی شاید شعر وکہانت کی طرح کوئی چیز ہے ۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ یہ غلط ہے ۔ یہ کلام انسانی دماغ کی کدوکاوش کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے نہ اس میں کہانت اور شاعری کی آمیزش ہے ۔ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ اور جو فرشتے کی رسالت سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا ہے ۔ اور یہ اس لئے کہ یہ ہمہ صداقت اور سچائی ہے ۔ حالانکہ شعروکہانت میں چوں الکذب اواھن او کا اصول کافر فرما ہوتا ہے ۔ اور ان کے متعلق یہ احتمال کہی نہیں ۔ کہ یہ اللہ پر تمہاری خواہشات کے مطابق افترا کا ارتکاب کرسکیں گے ۔ کیونکہ اگر یہ ایسا کریں ۔ تو ہم ان کو زندگی کے حق سے ہی محروم کردیں * واضح رہے کہ قطع تین کا اصول بنیاد کے لئے ہے ۔ اور غرض یہ ہے ۔ کہ منکرین ان کی جانب سے بالکل مایوس ہوجائیں ۔ اور دل کے کسی گوشے میں اس خیال کو جگہ نہ دیں ۔ کہ کسی وقت بھی ان کی مرضی کے مطابق دین میں تغیروتبدل پر قادر ہوسکیں گے ۔ ہر مدعی نبوت کے متعلق نہیں ہے *۔