مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا
بعض یہود کلمات کو ان کی جگہوں سے ہٹا کر ان میں تحریف پیدا کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا، اور ہم نے نافرمانی کی (اور کہتے ہیں کہ) تم سنو، تمہیں نہ سنایا جائے (یعنی تم بہرے ہوجاؤ) اور ہماری رعایت کرو، زبان موڑ کر، اور دین میں عیب نکالنے کے لئے، اور اگر وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اور سنئے اور ہمیں مہلت دیجئے، تو ان کے لئے بہتر اور زیادہ مناسب ہوتا، لیکن اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت بھیج دی ہے، اس لئے وہ صرف برائے نام ایمان کا اظہار کرتے ہیں
تحریف کلمات : (ف1) ان آیات میں یہود کی عادت تحریف کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ ذوق حق سے قطعا محروم ہیں ، یہ باتیں سنتے ہیں اور اسے بالکل بدل دیتے ہیں پھر طبیعتیں اس درجہ مسخ ہوچکی ہیں کہ گستاخی ودل آزاری سے بھی باز نہیں آتے ۔ ﴿رَاعِنَا ﴾کی تفصیل گزر چکی ہے ، ان کا مقصد بہرحال ایذاء رسول (ﷺ) اور اپنی گستاخی کا اظہار ہوتا تھا ۔ وہ اس لفظ کو ذرا زبان داب کر کہتے ہیں جس سے ذم کا پہلو زیادہ نمایاں ہوجاتا اور اتنی سی بات سے خوش ہوجاتے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے دور رہتے ہیں اور بوجہ اپنی گستاخی وملعونیت کے نور ایمان سے ہمیشہ دور رہتے ہیں ۔ حل لغات : مَوَاضِعِ: جمع موضع ، جگہ ، مقام ۔ رَاعِنَا: ہماری طرف التفات فرمائیے ۔ کلمہ ترغیب ہے ۔ انْظُرْنَا: دیکھیے ، ملاحظہ فرمائیے ۔