سورة الملك - آیت 1

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے حساب برکتوں (١) والا ہے وہ (اللہ) جس کے ہاتھ میں (سارے جہان کی) بادشاہی ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اسلامی سوشلزم ف 1: جہاں تک ذات خد اوندی کا تعلق ہے ۔ وہ تو اضافہ وارتقاء مراتب سے یک قلم منزہ اور پاکی ہے ۔ اس لئے تبارک کییہ معنے تو ہرگز نہیں ہیں ۔ کہ اس کی صفات جلال اور شنون جمال میں کہیں ازدیاء کا امکان ہے ۔ اس کی شان ازل سے ابد تک یکساں ہے ۔ وہ الان کم کان کا مصداق ہے ۔ وہ قدرت وحکمت اور حسن وکمال کا وہ آخری مفہوم ہے ۔ جس تک عقل انسانی پہنچ سکتی ہے ۔ مگر اس کا احاطہ نہیں کرسکتی ۔ البتہ اس کے معنے یہ ہوسکتے ہیں ۔ کہ اس کے فیوض رحمت میں ابداً اور دائماً باعتبار کائنات کے اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ اور اس کی ربوبیت زیادہ اتم کو زیادہ جمیل اور زیادہ مفید شکل میں بدل رہی ہے *۔ بیدہ کالفظ جسمانیت میں لالت نہیں کرتا ۔ بلکہ مفہوم تملیک کو زیادہ مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ کائنات ارضی وسمادی کا حقیقی مالک صرف خدا ہے ۔ اور یہ لوگ جو جبروظلم اور استبداً وغضب کی بناء پر دنیا پرچھارہے ہیں ۔ قطعاً اس بات کا استحقاق نہیں رکھتے کہ دنیا کے تنہا مالک قراردیئے جائیں ۔ اور غربا اور مساکین کو زندگی کے تمام فیوض سے محروم کردیں ۔ مالک خدا ہے ۔ اور یہ لوگ نفس امین ہیں ۔ ان کا کام یہ نہیں ہے ۔ کہ اپنی مرضی سے دنیا کے منافع کو قصرف میں لائیں ۔ بلکہ یہ ہے ۔ کہ خدا کے قوانین کے مطابق دولت وثروت کی تقسیم کریں ۔ اشتراکیت اور اسلام کے تخیل میں یہی بنیادی اختلاف ہے ۔ کہ اول بلند کو تحرکی کے سوید تمام زمین اور آلات نفع کو سٹیٹ کے سپرد کردیتے ہیں ۔ اور توقع رکھتے ہیں ۔ کہ وہ انصاف کے ساتھ ان میں ان چیزوں کو تقسیم کردے گی ۔ اور اسلام انسانوں کی کسی جماعت کو یہ حق نہیں دیتا ۔ کہ عدل وانصاف کو اپنے ہاتھ میں لے ۔ اور لوگوں کی قسمتوں کی مالک بن جائے *۔ وہ صرف خدا پر اعتماد رکھتا ہے اور صرف اس کے منصفانہ فیصلوں کو نبی نوع انسان کے لئے مفید سمجھتا ہے ۔ اس کے نزدیک انسانوں کی کوئی جماعت اس قابل نہیں ہے ۔ کہ بغیر آسمانی ہدایات کے وہ تسلی بخش کلچرل کی تاسیس کرسکے *۔ حل لغات :۔ الملک ۔ ہر نوع کا قبضہ واقتدار * سبع سماوت ۔ کئی اجرام رفیع ۔ باور ہے ۔ سبح کا لفظ جس طرح ایک متقین عد دکے لئے آتا ہے ۔ اسی طرح کثرت کے لئے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے * نفوت ۔ چوک ۔ نقص وغیب * حسیر ۔ تھکی ماندی ۔ ورماندہ *۔