رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا
ایک رسول بھیجا ہے جو تمہارے سامنے اللہ کی کھلی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں، تاکہ وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، ظلمتوں سے نکال کر روشنی تک پہنچا دیں، اور جو اللہ پر ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا وہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ نے انہیں اچھی روزی دی ہے
زندہ قرآن ف 1: قرآن حکیم نے متعدد مقامات میں منصب نبوت کی تصریح کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے ۔ کہ پیغمبر کی اجازت عقیدت مندوں کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے ۔ اور ان کی اطاعت اور ان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کی نجات ہے ۔ مگر ایک برخود غلط گروہ کا یہ عقیدہ ہے ۔ کہ قرآن کے سوا اور کوئی شخصیت مطاع نہیں ہے ۔ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت محض یہ ہے ۔ کہ وہ پیغام کو ہم تک پہنچا دیتا ہے ۔ اب یہ ہمارا کام ہے ۔ کہ ہم اسکو لغت اور ادب کی روشنی میں سمجھیں ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا تو کچھ تفصیلات بیان ہی نہیں کرتا ۔ اور یا اس کی بیان کردہ تفصیلات ہمارے لئے مستند نہیں ہیں ۔ اس آیت نے اس مغالطہ کو دور کردیا ہے ۔ اور بالکل واضح کردیا ہے ۔ کہ وہ ذکر جس کی پیروی کی تم کو تلقین کی گئی ہے ۔ اس کو صرف قرآن کے اوراق میں نہ ڈھونڈو ۔ کہ اس طرح تم حق وصداقت کو تلاش کرنے میں قطعاً ناکام رہو گے ۔ اس کو رسول کی زندگی کے صفحات میں ڈھونڈو ۔ کہ وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ۔ کہ آیات بینات کو تفصیل کے ساتھ پڑھ کر سنائے ۔ اور اس طرح انسانیت کو فہم واستدلال کے تاریک جنگلوں سے نکال کر ایمان اور تقویٰ کی روشن وادیوں میں پہنچادے ترکیب نحومی کے لحاظ سے یہاں رسولاً ذکر ان کا بدل ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اطاعت اور وہ اطاعت اور فرمانبرداری جو قرآن میں مذکور ہے ۔ اس کی تکمیل اسوقت تک نہیں ہوسکتی ۔ جب تک اس کو رسالت کی روشنی میں نہ دیکھاجائے ۔ کیونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی قرآن کا محطب اول سے ۔ اس کا دل مہیط وحی ہے ۔ اس کے اعمال پر اس کو خدا کی جانب سے تبیہ ہوتا ہے ۔ اس کی شان میں آیا ہے ۔ وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی ۔ یعنی وہ جو کچھ نہیں کہتا ۔ اس حالت میں یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ قرآن کی تفصیلات حجت اور سنددہوں ۔ اور وہ فاسق وفاجر نسان و چند کتابیں پڑھ لیتا ہے ۔ قرآن کا معتبر معارج بن جائے ۔ وہ جس کا استاد جبرائیل ہو ۔ علمہ شدیدالقویٰ۔ وہ جس کا سینہ حقائق کے فہم کے لئے کشادہ اور وسیع ہو الم نشرح لک صدراک وہ تو قرآن کو صحیح نہ سمھے ۔ اور آج کل کے روشنی والے درست اور صحیح سمجھیں ۔ جو نہ دولت علم سے بہرہ مند ہیں ۔ اور نہ صلاح وتقویٰ سے آشنا ۔ ع برین عقل وہمت بباید گریست ۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے ۔ کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوائے اس قرآن کے جس کو ہم سمجھتے ہیں ۔ اور کوئی بات حجت نہیں ۔ وہ کس درجہ گستاخی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ کیا ان کے نزدیک منصب نبوت کے معنے محض یہ ہیں کہ وہ ایک نوع کی سفارت ہے ۔ جس کو سیرت اخلاق اور اعمال کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ۔ کیا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی حیثیت ہے کہ وہ قرآن کو بلا کم وکاست پہنچا دے ۔ چاہے معاذ اللہ خود نہ سمجھے اس پر عمل نہ کرے ۔ اور دوسروں کو نہ سمجھائے اگر واقعہ اس کے برعکس ہے ۔ تو منکرین سنت بتائیں ۔ کہ رسول کا فہم اس کا عمل اور اس کی سیرت کہاں منضبط ہے ؟ کن کتابوں میں موجود ہے ! آخر قرآن فہمی کی ضرورت تو ان کو ان حاملین قرآن سے کہیں زیادہ ان کو محسوس ہوتی ہوگی ۔ وہ قرآن فہمی ہے کہاں ؟