سورة الطلاق - آیت 5

ذَٰلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنزَلَهُ إِلَيْكُمْ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

یہ اللہ کا حکم ہے جسے اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، اور اسے بڑا اجر دیتاہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

مبغوض ترین جواز (ف 1) طلاق کو اسلام بالکل اضطراری حالات میں جائز تصور فرماتا ہے اور یہ قطعاً پسند نہیں کرتا کہ جاہلیت کی طرح ایک آدمی جب چاہے بلا کسی عذر کے عورت کو چھوڑ دے ۔ یہی وجہ ہے حضور (ﷺ) نے فرمایا ہے ’’ أبغض المباحات عند الله الطلاق ‘‘ کہ اللہ کے نزدیک وہ بات جو جائز تو ہے مگر مبغوض ترین صورت میں وہ طلاق ہے یعنی اپنی رفیقہ حیات کو اپنے سے جدا کرنا ۔ بعض غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں طلاق پر کوئی پابندی عائد نہیں یا اسلام نے طلاق کے ایجاد کرنے میں اذلیت اختیار کی ہے ۔ حالانکہ یہ بات نہیں ہے اسلام نے طلاق پر پابندیاں عائد کی ہیں اور ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ ایک پرہیز گار انسان کے لئے عام حالات میں عورت کو چھوڑ دینا ممکن ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ صلاح وتقویٰ کے خلاف ہے اور اس جذبہ کے خلاف ہے جس کو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ پھر اگر حالات اس کو بالکل مجبور ہی کردیں تو بھی رجوع کے مواقع باقی رکھے ہیں تاکہ وہ خوب سوچ سمجھ لے ۔ اور اگر چاروناچار وہ اس مقام تک پہنچ جائے جہاں پہنچ کر علیحدگی ضروری ہوجاتی ہے تو پھر اسلام اس کے اس جائز حق کو پامال نہیں کرتا ۔ بلکہ اس کو اجازت دیدی ہے کہ بذریعہ طلاق عورت کو چھوڑ دے اور وہ بھی تکلیف سے آزاد ہوجائے ۔ آپ غور فرمائیے کہ وہ ان حالات میں بھی جبکہ میاں بیوی ایک دوسرے سے الگ ہورہے ہیں تقوی اور نیکی کی تلقین کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ان تعلقات کو یوں منقطع کرو جس طرح ایک پاکباز انسان بدرجہ مجبوری منقطع کرتا ہے خود غرض اور ظالم آدمی کی طرح نہیں ۔ گویا اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان عالم غیض وغضب میں بھی اخلاقی بلندی کو ہاتھ سے نہ ڈالے اور ثابت کردے کہ وہ یہ علیحدگی جو گوارا کررہا ہے تو بالکل مجبور ہوکر ورنہ وہ چاہتا نہیں ہے ۔ اسلام سے پہلے بھی طلاق کا رواج تھا اور اس پر کوئی پابندی عائد نہ تھی ۔ ایک مرد جب چاہتا عورت کو طلاق دے دیتا اور پھر جب چاہتا رجوع کرلیتا ۔ اسلام نے اس صورت حالات کو بالکل ختم کردیا اور اس کو باقاعدہ نظام کی شکل میں ڈھال دیا ۔ ان آیات میں اجمال کے ساتھ ان مسائل کا ذکر ہے۔ (1) حاملہ عورت کی عدت تاوضع حمل ہے۔ (2) مطلقہ عورتوں کو اپنی وسعت کے مطابق مکان دو ۔ (3) ان کو تنگ کرنے کے لئے تکلیف نہ دو۔ (4) اگر مطلقہ عورت حاملہ ہو تو اس کے نفقہ کا بھی بندوبست کرو ۔ (5) اگر بچہ ہو تو دودھ کے لئے اس کی ماں کو اجرت دو ۔ اس کے بعد یہ بتایا ہے کہ جن قوموں نے اپنے رب کی مخالفت کی ہے وہ دنیا سے مٹ گئی ہیں اور غالباً اس میں اس طرف لطیف اشارہ ہے کہ جب قومیں مٹتی ہیں تو ان کی تباہی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ان کی خانگی زندگی کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور وہ اپنے گھر کے اندر ہر سعادت اور ہر مسرت سے محروم ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد ان کی یہ محرومی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہوجاتی ہے ۔ واللہ اعلم حل لغات : أُولَاتُ الْأَحْمَالِ ۔ حاملہ عورتیں ۔