إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا
اگر تم لوگ ان کبیر گناہوں (39) سے بچو گے جن سے تمہیں روکا گیا ہے، تو تمہارے چھوٹ گناہوں کو ہم مٹا دیں گے اور تمہیں عزت و تکریم والا مقام عطا کریں گے
اسلامی کفارہ : (ف ١) مذہب کا مقصد یہ ہے کہ گناہگار انسان کو خدا کی بادشاہت تک کامیابی کے ساتھ پہنچا دے اور اس میں ایسی قابلیت اور استعداد پیدا کر دے کہ وہ خدا کی بخشش بےحد کا مستحق ٹھہرے ، قرآن حکیم ایک ایسے ہی مسلک کی طرف بلاتا ہے جو بالکل فطری اور معقول ہے اور جس پر چلنے کے بعد لامحالہ انسان میں ” نجات “ کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ، چنانچہ وہ کہتا ہے کبائر سے بچنے کی کوشش کرو ، یہ طے کرلو کہ موٹے موٹے اور عام سمجھ میں آجانے والے گناہ ہم سے سرزد نہیں ہوں گے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ طبیعت میں پرہیزواتقاء کے جذبات پیدا ہونے لگیں گے اور انسان باقاعدہ اور باضابطہ طور پر گناہوں سے نفرت کرنے لگے گا اور اسے ایک ایسی زندگی عطا ہوگی جو یکسر روحانی اور اعلی زندگی ہے ، یہ اسلامی کفارہ ہے جو بالکل واضح اور یقینی ہے ۔ دوسرا کفارہ وہ ہے جو عیسائی پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے صلیب پر جان دے کر ہمارے تمام گناہوں کو اپنے اوپر اٹھا لیا ہے ، یہ کس قدر غلط اور غیر منطقی عقیدہ ہے ۔ کیا کسی انسان کی موت دوسروں کے لئے باعث نجات ہو سکتی ہے ؟ اور کیا کوئی انسان تمام لوگوں کو اپنے ذمے لے سکتا ہے ؟ بات یہ ہے کہ یہ ایک بت پرسانہ عقیدہ ہے جو عیش وعشرت کے لئے ایک طرح کی دلیل صحت ہے اور بس یار لوگوں نے مذہب کے نام تعیش وفسق کے لئے ایک وجہ جواز پیدا کرلی ہے ۔