وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! تم کیوں مجھے ایذا (٤) پہنچاتے رہتے ہو، حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہارے لئے اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، پس جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی، تو اللہ نے ان کے دلوں کو زیادہ ٹیڑھا کردیا، اور اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا ہے
بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان آیات میں انبیاء کے حالات کو بیان کیا ہے تاکہ حضور (ﷺ) کو معلوم ہو کہ امم سابقہ نے کیونکر حق وانصاف کی مخالفت کی اور کس طرح اپنے انبیاء کو بوقلمون اذیتوں سے شکستہ خاطر کیا ہے ۔ فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور تمہاری اصلاح کے لئے مبعوث ہوا ہوں تو انہوں نے کیا کہا ؟ کیا فوراً تسلیم کرلیا ؟ نہیں بلکہ مطالبہ کیا کہ ﴿أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً ﴾پہلے جس خدا کی توحید کی طرف تم ہم کو دعوت دیتے ہو اس کو کھلم کھلا دکھاؤجب مانیں گے ۔ پھر گو سالہ کی پرستش شروع کردی اور خدا کی توحید کا عملاً انکار کیا ۔ جہاد کے لئے حضرت موسیٰ نے ابھارا تو کہنے لگے کہ ﴿فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ ﴾کہ آپ اور آپ کا رب اس مہم کو سر کرنے کے لئے جائیں ہم میں تو سکت نہیں ہے ہم تو یہیں جمے بیٹھے رہیں گے ۔ اس کے علاوہ اور کئی الزام اور تہمتیں تراشیں جس سے اللہ کے پیغمبر کو دکھ پہنچا ۔ اس پر انہوں نے ازراہ تاسف فرمایا کہ کم بختو ! جانتے بوجھتے ہو کہ میں خدا کا رسول ہوں مگر پھر ایذا دہی سے باز نہیں آتے ہو ۔ فرمایا یہ بدکرداروں کی قوم تھی اس لئے ان کو اللہ کی طرف سے توفیق ہدایت عطا نہیں ہوئی ۔