وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (وہ مال) ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو مہاجرین و انصار کے بعد دائرہ اسلام میں داخل (٨) ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں معاف کر دے، اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی معاف کر دے جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ پیدا کر۔ اے ہمارے رب ! تو بے شک بڑی شفقت والا، بے حد رحم کرنے والا ہے
ف 1: ان آیات میں ان لوگوں کی تفصیل بیان کی ہے ۔ جو اموال غنیمت کا استحقاق رکھتے ہیں ۔ فرمایا ۔ اس مال میں ان غریب مہاجرین کا حصہ ہے ۔ جو اپنے گھر اور اپنے مال وسامان سے جبرا جدا کردیئے گئے ۔ جو محض اللہ کی رضامندی کے طالب ہیں ۔ اور وقتاً فوقتاً جب ضرورت پڑے میدان جہاد میں بطور سپاہی کے لڑتے ہیں ۔ اور اپنی صداقت ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ پھر وہ انصار بھی اس کا ستحقاق رکھتے ہیں ۔ جو مدینہ میں پہلے سے قیام پذیر ہیں ۔ اور ایمان کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے ۔ جو مہاجرین کو وقعت کی کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ ان کی آسودگی سے نہ صرف خوش ہوتے ۔ بلکہ بسا اوقات ان کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ۔ چاہے خود تکلیف ہی میں کیوں نہ مبتلا ہوں ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی مستحق ہیں ۔ جو ان کے بعد آئے ۔ اور ان کے لئے ازراہ اخلاص مغفرت کی دعا کرتے ہیں *۔ حل لغات :۔ نبوء الداروال ایمان ۔ جنہوں نے مدینہ کو اور عقیدہ اسلام کو اپنا مسکن قرار دیا ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ مسلمان مقامی قید کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔ اس کے نزدیک اس چیز عقیدہ کی حفاظت وصیالت ہے ۔ اور وہ زمین کے جس گوشے میں میسر ہو ۔ اس کا وطن ہے ۔ خصاصۃ ۔ فاقہ اور عشرت ۔ یعنی مسلمان ہمیشہ ہر حالت اپنے دوسرے بھائی کی ضروریات سے زیادہ لائق توجہ خیال کرتا ہے * غلا ۔ کینہ ۔ حسد *۔