ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
پھر ہم نے ان کے پیچھے اپنے دوسرے رسول (٢٥) بھیجے، اور ان سب کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا، اور ہم نے انہیں انجیل دیا، اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں نرمی اور رحمت ڈال دی۔ اور جس ” رہبانیت“ کی بدعوت انہوں نے پیدا کی، اسے ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر انہوں نے اللہ کی رضا کی چاہت میں ایسا کیا تھا، پھر انہوں نے کما حقہ اسے نہیں نباہا، پس ان میں سے جو لوگ ایمان پر قائم رہے، ہم نے انہیں ان کا نیک اجر دیا، اور ان میں سے بہت سارے فاسق ہوگئے
یہ انجیلیں اصلی نہیں ہیں یہ واضح رہے کہ مودوہ انجیلیں ستی ، لوقاء مرتس اور یوحنا سب کی سب اصل میں حضرت مسیح کے نامکمل حالات میں جس کے بعد کے لوگوں نے قلمبند کیا ۔ ورنہ وہ انجیل جو حضرت مسیح پر نازل ہوئی ۔ ایک مستقل صحیفہ تھا ۔ جس میں ان کو زندگی کی مشکلات سے مخلصی حاصل کرنے کا طریق بتایا گیا تھا ۔ ان انجیلوں کے لکھنے والے لوگ حضرت مسیح کے حواری نہیں ۔ اور یہ بھی تفصیل کے ساتھ معلوم نہیں ۔ کہ یہ لوگ کون تھے ۔ کس قماش کے تھے ۔ اور اس وقت کی مسیحی دنیا میں ان کا درجہ اور مقام کیا تھا ۔ پھر بڑی مصیبت یہ ہے ۔ کہ صرف انہیں لوگوں نے انجیلیں نہیں لکھی ہیں ۔ بلکہ بیسیوں نے اس پر ہاتھ صاف کیا ہے ۔ جیسا کہ خود ان انجیلوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ اور تیسری صدی عیسوی تک تو بلا مبالغہ سینکڑوں نسخے موجود تھے ۔ جن کو جعلی قرار دیا گیا اور ان چار انجیلوں کو نسبتاً زیادہ صحیح سمجھا گیا ۔ قرآن حکیم نے جہاں ان کتابوں کی تصدیق فرمائی ہے ۔ اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ اس شکل میں ان کو درست اور صحیح تسلیم کرتا ہے ۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ان میں جو صداقت باوجود تحریف اور تصرف کے موجود ہے ۔ اس کو تسلیم کرتا ہے ۔ اور یہ عیسائیوں کو توجہ دلاتا ہے ۔ کہ وہ اس کی روح سمجھنے کی کوشش کریں *۔ دین فطرت رہبانیت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا دین جو ان مسیح کے ماننے والوں کو دیا گیا ۔ وہ نہایت آسان اور سہل تھا ۔ اس میں کوئی بات ایسی نہ تھی ۔ جو طبیعت میں پیوست پیدا کردے ۔ بلکہ خواہ مخواہ مشکلات ومصائب ، بدعات وخرافات کو لازم قرار دیدے ۔ کیونکہ خدا اپنے بندوں پر نہایت درجہ مہربان اور کرم فرما ہے ۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ زیدو ورع کے نام پر نفس کو دکھ اور تکلیف میں مبتلا کرلیں ۔ اسکی ہرگز یہ خواہش نہیں ہے ۔ کہ اس تک پہنچنے والے دشوار گزار پگ ڈنڈیوں کو اختیار کریں ۔ اور دنیا سے منہ موڑ لیں ۔ جذبات کو کچل ڈالیں ۔ اور تمدن اور شائستگی کو رہبانیت کی بھینٹ چڑھادیں ۔ وہ تو یہ چاہتا ہے ۔ کہ لوگ نرومادہ کی تمام مسرتوں سے بہرور ہوں ۔ آسائش اور آرام کو اپنے اوپر لازم قرار نہ دیں ۔ خواہشات کو کستسنین نہ سمجھیں ۔ بلکہ ان سے کام لیں ۔ اور دنیا کو بتادیں ۔ کہ اللہ کے بندے کیونکر ان نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اور کیونکر اس کی نیابت کا حق ادا کرتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اس نکتہ کو نہ سمجھا ۔ اور تعذیب نفس کو اصل دین میں داخل کردیا ۔ اور پھر لطف یہ ہے کہ ان پابندیوں کو پورا بھی نہ کرسکے ۔ کیونکہ فطرت سے جنگ محال ہے ۔ یہ ناممکن ہے ۔ کوئی قوم اپنی خواہشات کو دبادینے کے بعد خود زندگی کے صحیح مفہوم اور اس کی برکات سے متمتع ہوسکے *۔ عیسائیوں نے مدتوں اور قرنوں تقبل اور رہبانیت کا جھوٹا مظاہر کیا اور بالآخر سب کے سب عاجز ہوگئے ۔ اور اقرار کرنا پڑا ۔ کہ شجرہ کی زندگی علیحدگی اور ترکہ والفات کی زندگی ۔ محض ریاکاری اور بےعمل ہے ۔ جس سے نہ روح کو کوئی فائدہ پہنچا ہے ۔ اور نہ جماعت کو اس لئے اس کے خلاف یورپ نے جہاد کیا اور اس لعنت سے مخلصی حاصل کی ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ کہ جب تک اور زاہدوں کا اقتدار رہا ۔ یورپ بالکل جاہل رہا ۔ البتہ ان کی گرفت سے نکلتے ہی زندہ اور بیدار ہوگیا جس کے واضح اور متعین معنی یہ ہیں ۔ کہ رہبانیت تمدن اور ارتقاء کی دشمن ہے ۔ اور وہی مذہب پنپ سکتا ہے ۔ جو یہ کہہ دے کہ ہم رہبانیت کے اصولوں کو تسلیم نہیں کرتے * لارمقیاآیۃ فی الاخلاف *۔ حل لغات :۔ فوادا ۔ روشنی جاہل برعان کو دی جائے گی *۔