سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
لوگو ! تم اپنے رب کی مغفرت (20) کی طرف دوڑو، اور اس جنت کی طرف جس کی کشادگی آسمان وزمین کی کشادگی کی مانند ہے، ان کے لئے تیاری کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ عظیم فضل والا ہے
استحقاق اور تفضل کی بحث اس حیثیت سے کہ جنت صلہ ہے اعمال صالحہ کا ۔ اور ایمان کامل کا ۔ یہ استحقاق ہے ۔ اور اس جہت سے کہ خود اعمال صالحہ کی توفیق رحمت ہوتی ہے ۔ رب کریم کی جانب سے فضل اور کرم گستری ہے ۔ اور پھر ہمارے ناچیز اعمال کو اس درجہ اہمیت دیتا ۔ جن میں پہلو ریاکاری اور خود غرضی کے پنہاں ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ محض فضل اور نوزش ملتی ہے ۔ ورنہ کون شخص ہے جو دعویٰ کے ساتھ کہہ سکے کہ وہ اللہ کے احکام کی بجاآوری میں مرتبہ احسان پر فائز ہے ۔ اور اس سے نیت وعمل کی کوئی کوتاہی استوار نہیں ہوئی ۔ اور پھر اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے ۔ کہ کسی اللہ کے بندے کو اعمال صالحہ کی پوری توفیق ہوئی ہے ۔ تب بھی یہ سب اعمال اس کی نعمتوں کے مقابلہ میں کیا درجہ رکھتے ہیں ؟ حیات کی نعمت کے مقابلہ میں کوئی نیکی رہی ہے ۔ جس تو بچا سکے ۔ کیا یہ درست نہیں ہے ۔ کہ ایک سانس کے لئے جو انسان کو میسر ہے ۔ کائنات کے ہزاروں قانون حرمت میں آتے ہیں ۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ حقیر عاجز انسان زندگی کے ان لاوائے شکر اور اظہار سیاسی کے فریضہ سے عہدہ برا رہا ۔ یہ اس کی عنایت ہے کہ وہ اعمال کے ایک اور کہتا ہے ۔ کہ اگر تم اسلام کے اوامروا ہی کو تسلیم کروگے اور شے کی کوشش کروگے ۔ تو وہ تم کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا *۔