إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ
ہم نے ان پر ایک چیخ مسلط کردی، پس وہ باڑ بنانے والے کی ٹوٹی پھوٹی گھاس پھونس کے مانند ہوگئے
نبوت کا تصور ف 1: حضرت صالح کی قوم ثمود کے واقعات بیان فرمائے ہیں ۔ کہ جب اللہ کے یہ پاکباز بندے ان میں آئے اور انہوں نے اللہ کی توحید کو بیان کیا ۔ اور تزکیہ نفس کے طریقوں سے آگاہ کیا ۔ تو ان لوگوں کی رگ کبروغرور پھڑک اٹھی ۔ انہوں نے کہا کیا ہم اپنوں میں سے ایک آدمی کو پیغمبرمان لیں ۔ اور یہ تسلیم کرلیں ۔ کہ ایک شخص جو بالکل ہماری کھاتا پیتا اور اٹھنا بیٹھنا ہے ۔ وہ نبی ہے ۔ گویا ان کے نزدیک نبوت کا تصور یہ تھا کہ وہ فوق البشر خوصیات اپنے اندر رکھتا ہو ۔ اور جو کچھ ہو ۔ کم از کم انسان نہ ہو ان کو اصل میں دکھ اس بات کا ہوتا تھا ۔ کہ آخر اللہ تعالیٰ کی نگاہ انتخاب حضرت صالح بنی پر کیوں پڑی ۔ جبکہ قوم میں اور بھی معززین موجود تھے ۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے ۔ کہ ان کے نزدیک حضرت صالح سرے سے شرافت وعظمت کے ان معیاروں پر پورے نہیں اترتے تھے ۔ جن کو وہ عزت ووجاہت کے لئے ضروری قرار دیتے تھے ۔ وہ دیکھتے تھے ۔ کہ ہمارے پاس مال ودولت کے خزائن ہیں ۔ اور صالح ان سے محروم ہے ۔ ہم کو زندگی کی تمام آسائشیں حاصل ہویں ۔ اور صالح کو میسر نہیں ۔ ہم اپنی قوم میں رسوم کے پابند ہیں ۔ اور یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس صورت حالات میں یہ بات ان کے لئے ناقابل فہم تھی ۔ کہ ان کو نبوت کے عہدہ جلیلہ کے لئے کیوں منتخب کرلیا گیا ۔ وہ نہیں جانتے تھے ۔ کہ نبوت اللہ کا دین ہے اس کی بخشش وموہیت ہے وہ جس کو چاہے ۔ اس خدمت کے لئے چن لے ۔ اور جس سے خوش ہو ۔ اس کو نوازدے ۔ وہ نبوت کے لئے خدمات اور مال ودولت کی فراوانی کو نہیں دیکھتا ۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے ۔ کہ کون زیادہ کامیابی کے ساتھ اس بارگراں کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے ۔ اور کس کے دماغ میں حق وصداقت کی تابش ہے ۔ اور کون دل اس ولائت عزیز کو حفاظت اور دیانت کے ساتھ سنبھال سکے گا ۔ اس کا معیار یہ نہیں ہے کہ قوم میں کون وجیہہ اور معزز ہے ۔ بلکہ اس کی نظر استعداد اور صلاحیت پر ہوتی ہے ۔ بہرکیف ان لوگوں نے حضرت صالح کی تکذیب کی ۔ کہ معاذ اللہ کہ یہ جھوٹا اور ہرگز نبوت کا استحقاق نہیں رکھتا ۔ فرمایا ۔ یہ لوگ دیکھ لیں گے کون جھوٹ بولتا اور ارتراتا ہے ۔ ہم آزمائش کے لئے ایک اونٹنی صالح کو مرحمت ٹھہراتے ہیں *۔ باقی صفحہ اگر ان لوگوں نے اس کو تکلیف نہ دی ۔ اور پانی سے سیر ہونے دیا ۔ تو بہتر ورنہ ان پر عذاب آئے گا ۔ آپ منتظر رہیں ۔ چنانچہ ان کے ایک رفیق نے ازراہ سرکشی اس کو ذبح کرڈالا ۔ تو عذاب نے ان کو آلیا ۔ اور ان کو ان کے غرور وکبر سمیت نابود کرڈالا *۔