فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ
تو ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہیں پایا
سدومیوں کی بداخلاقی (ف 1) جب کوئی قوم خواہشات نفس سے مغلوب ہوجائے لوگوں کو روحانیت مذہبی اور دینی تربیت کیساتھ لگاؤ باقی نہ رہے زندگی کا مقصد ارزل ترین حیات وجذبات کی تکمیل کا سامان قرار پائے اور روح کی مقتضیات سے یک قلم آنکھیں بند کرلی جائیں اس وقت دلوں سے پاک بازی اور پرہیزگاری کے خیالات دور ہوجاتے ہیں ۔ اللہ کا ڈر نکل جاتا ہے اور شیطان غالب ہوجاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیوانیت چھا جاتی ہے شہوانیت مسلط ہوجاتی ہے اور ایسے ایسے ناپاک اعمال کی جستجو رہتی ہے جن کے تخیل سے شرافت منہ چھپالے ۔ سدومیوں کی بالکل یہی کیفیت تھی جب حضرت لوط (علیہ السلام) ان کے پاس تشریف لائے تو ان لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت بالکل پست ہوچکی تھی ۔ دن رات ان کا مشغلہ یہی تھا کہ غیر فطری طور پر جذبات جنسی کی تسکین کے لئے مارے مارے پھریں ۔ چھوٹے سے لے کر بڑوں تک اور جاہلوں سے پڑھے لکھوں تک سب اسی دھن میں تھے ۔ ہر مجلس اور ہر جگہ انہیں باتوں کا چرچا تھا ۔ انہیں خیالات کی اشاعت تھی اور اس حد تک یہ برائی ان کی رگ رگ میں سرایت کرچکی تھی کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو ٹوکا اور متنبہ کیا تو ان کو اس پاکبازی پر تعجب ہوا ۔ اور صاف کہنے لگے کہ تمہیں اس قدر پرہیزگاری کا خیال ہے تو اس ملک کو چھوڑ دو ہم تو باز نہیں آئیں گے ۔ بدبختی کی انتہا دیکھئے کہ جب فرشتے ان کے پاس آئے تاکہ ان کی بستیوں کو الٹا دیں تو انہوں نے ان کو خوبصورت لڑکوں کی شکل میں دیکھ کر اپنی ناپاک خواہشات کی تکمیل کے لئے منتخب کرنا چاہا ۔ یہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس آئے تھے تاکہ ان کو حضرت اسحاق کی ولادت کی خوشخبری سنائیں ۔ چنانچہ جب وہ یہ خوشخبری سنا چکے تو حضرت ابراہیم نے پوچھا کہاں کے ارادے ہیں تو انہوں نے بتلایا کہ سدومیوں کی ناپاک اور مجرم قوم کے ہاں جارہے ہیں تاکہ ان پر عذاب کے پتھر برسائیں اور موت کے گھاٹ اتار دیں کیونکہ انہوں نے زندگی کانہایت ناجائز استعمال کیا ہے اور خطرہ ہے کہ ان کی بداعمالی آئندہ نسلوں تک متجاوز نہ ہوجائے ۔ واضح رہے کہ یہ جرم اتنا ذلیل ، اس قدر خطرناک اور برا ہے کہ اس کے انسدادکے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) ایسے پاکباز انسان کو خصوصیت کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ بلا خوف قوم کو ان بدخیالات اور فواحش سے روکیں ۔ کیونکہ اس فعل شنیع سے قومیں صرف بداخلاق ہی نہیں ہوجاتی ہیں بلکہ ذہنی اور دماغی لحاظ سے پست اور ذلیل بھی ہوجاتی ہیں ۔ ان میں قوت واستعداد باقی نہیں رہتی کہ وہ دنیا میں تنومند اور ہشاش بشاش انسانوں کی طرح زندہ رہیں ۔ اور تمدن انسانی میں کیف ونشاط کا اضافہ کریں ۔ بلکہ اس زہر سے سارا جسم ماؤف ہوجاتا ہے دل ودماغ کی صلاحتیں چھن جاتی ہیں اور جرات وحوصلہ مفقودہوجاتا ہے بالآخر انجام یہ ہوتا ہے کہ اس نوع کی قوم حوادث کا مقابلہ نہ کرسکنے کی وجہ سے بالکل مٹ جاتی ہے ۔ یا حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتی ہے اس لئے آج بھی ہمارے علماء اور قائدین کو اس بیماری کے خلاف کمر بستہ ہوجانا چاہیے ۔ اور اپنی قوم کے نوجوانوں کو اس نوع کے خیالات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ اور ان کے ذہن نشین کرانا چاہیے کہ قومیں صرف اپنے اخلاق حمیدہ ہی سے زندہ رہی ہیں ۔