الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
جن سے لوگوں (117) نے کہا کہ کفار تم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے ہیں، تم ان سے ڈر کر رہو، تو اس خبر نے ان کا ایمان بڑھا دیا، اور انہوں نے کہا کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے
مجاہدین کا نعرہ مستانہ : (ف ٣) بدر صغری کا واقعہ ہے ، ابو سفیان نے جب محسوس کیا کہ حسب وعدہ مسلمان مقام جنگ تک پہنچ جائیں گے تو اس نے نعیم کو بھیجا تاکہ مدینہ میں جا کر مسلمانوں کو مرغوب کرے ، اس نے آکر کہا ، مسلمانو ! تم کیا غضب کر رہے ہو ، ابو سفیان پوری تیاری کے ساتھ آرہا ہے ، مدینہ سے باہر قدم رکھا تو یاد رکھو ایک بھی تم میں سے بچ کر نہیں آ سکے گا ، اگر مسلمان مجاہدانہ نکلے اور سالم وفائم واپس مدینہ لوٹے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ فوج کی کثرت ‘ سازوسامان کی چمک دمک مسلمان کے لئے مرعوب کن نہیں ہو سکتی ، اس سے تو اس کے دل میں اور قوت وتوانائی پیدا ہوجاتی ہے ، اور وہ (آیت) ” حسبنا اللہ “ کا نعرہ مستانہ لگا کر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے ۔ حل لغات : استجابوا : قبول کیا ، مان لیا ۔ لبیک کہا الفرح : زخم ، حسبنا : ہمیں بس ہے ۔ ہمارے لئے کافی ہے ۔ سوء : تکلیف ۔