لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اللہ کا مومنوں پر یقیناً یہ احسان (112) ہے کہ اس نے ان کے لیے انہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو اس کی آیتوں کی ان لوگوں پر تلاوت کرتے ہیں، اور انہیں پاک کرتے ہیں، اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اور اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے
نوع انسانی کا سب سے بڑا محسن : (ف ٢) اس آیت میں اللہ نے اس احسان عظیم کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہیں نے کونین کی لذتوں کو حاصل کیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے مطلع عالم پر جہل وجمود کے تاریک بادل چھا رہے تھے ، دنیا اخلاقی برائیوں کی انتہا کو پہنچ چکی تھی ، قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا ، ایران سے لے کر روم تک انسانیت کا کہیں نام ونشان نہ تھا ، ہندوستان جو حکمت و دانائی کے لئے ہمیشہ سے مشہور ہے ‘ اس وقت عقیم ہوچکا تھا ۔ زبردست زیردستوں کا خون چوس رہے تھے اور زیر دست نہایت انکسار کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہے تھے ، علم کا آفتاب غروب ہوچکا تھا ، سارے عرب میں چند لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، باقی جزیرہ جہل ونادانی کے اتھاہ سمندر میں غرق تھا ، ان حالات میں دنیا کا ہر ذرہ ایک آفتاب ہدایت کا منتظر تھا ، جو آئے اور دنیا والوں کو ثور وعرفان سیمجلی کو دے ، چنانچہ وہ آیا ، فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا رات کو ظلمت دن کی تابندگی سے بدل گئی ، خلاق واصلاح کا غوغا بلند ہوا ، امن وصلح عام کی طرح ڈالی گئی اور ایک دفعہ پھر انسانیت کو معراج کمال پر پہنچا دیا گیا ، ساری دنیا حکمت ومعرفت کے نشے میں چور ہوگئی ، زیردست زبردست ہوگئے اور قلم کا پرچم نہایت شان سے لہرانے لگا ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے جو رسول آیا ‘ وہ کامل تھا ، جہاں اس نے اللہ کی آیات کے تفصیل وتوضیح کی ‘ وہاں تزکیہ وتطہیر سے بھی کام لیا ، جہاں دماغوں کو روشنی بخشی وہاں دلوں کی دنیا کو بھی جلوؤں سے معمور کردیا ۔ حل لغات : من : احسان کیا ۔