سورة الأحقاف - آیت 35

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

پس اے میرے نبی ! آپ صبر (٢٣) کیجئے، جیساکہ اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا، اور ان کے لئے عذاب کی جلدی نہ کیجئے، جس دن وہ لوگ اس عذاب کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا ( تو ان کی حالت ایسی ہوگی کہ) جیسے وہ دنیا میں دن کی صرف ایک گھڑی ہی رہے تھے، یہ کام ایک پیغام الٰہی ہے، پس گناہ گاروں کے سوا کوئی ہلاک نہیں کیا جائے گا

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

نبوت وعزیمت (ف 1) منصب نبوت کے معنی یہ ہوتے ہیں جو شخص اس انعام سے سرفراز ہوتا ہے تمام قسم کی مخالفتوں کو خندہ پیشانی برداشت کرتا ہے ۔ وہ ہر نوع کی مشکلات ومصائب پر عبور حاصل کرتا ہے ۔ کیونکہ بالطبع نبوت نام ہے باطل کی مخالفت کا جھوٹ کے ساتھ اظہار دشمنی کا اور فواحش کے ساتھ جنگ کرنے کا ۔ اس لئے ناممکن ہے کہ پیغمبر قوم کی ہمدردیوں کو آسانی کے ساتھ قبول کرلے ۔ قوم اس کی شدید مخالفت کرتی ہے اس کے خلاف سارے گروہ انسانی کو مشتعل کردیتی ہے ۔ اور سیہ کاریوں سے اس کو ناکام رکھنے کی پوری کوشش کرتی ہے ۔ قوم جذبات عداوت وحسد میں اس درجہ ترقی کرجاتی ہے کہ نبی کو زندگی تک کا استحقاق نہیں بخشتی اور چاہتی ہے کہ اس کو وہ حقوق زیست بھی حاصل نہ ہوں جو دوسرے عام انسانوں کو حاصل ہوتے ہیں ۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ مکے والے آپ کو دکھ پہنچاتے ہیں تو آپ بھی صاحب عزیمت انبیاء کی طرح اس کو برداشت کیجئے اور عذاب طلب کرنے میں عجلت نہ فرمائیے ۔ کیونکہ جب عذاب کا دن آگیا تو پھر باوجود اس کے اب زندگی ناپائدار کو دائمی قرار دیتے ہیں اور ابدی سمجھتے ہیں اس وقت یہ سمجھیں گے کہ شاید ایک گھڑی دو گھڑی تک اس عالم میں رہے ہیں ۔ یہ عذاب پھر کافی ممتد ہوگا اور اس سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہوگی ۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ رفیق وفخور کو پنپنے نہیں دیتا اور یہ لوگ زیادہ دیر تک اس کی بخششوں اور رحمتوں سے استفادہ نہیں کرسکتے ۔ ان کا عذاب آئے گا ۔ اور ضرور آئے گا ۔ حل لغات : مِنَ الرُّسُلِ۔ یہ من تصفیہ نہیں ہے تنبیہ ہے کیونکر تمام انبیاء الولوالعزم ہوتے ہیں ۔