وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور یہ ناممکن ہے کہ کوئی نبی خیانت (110) کرے، اور جو خیانت کرے گا، وہ قیامت کے دن اس چیز کے ساتھ آئے گا جو اس نے خیانت کی تھی، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا
(ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی (علیہ السلام) انتہا درجہ کا دیانت دار ہوتا ہے ، اس کی طرف ادنی خیانت کا انتساب بھی گناہ ہے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بعض شرفاء نے خواہش کی تھی کہ بعض شرفاء نے خواہش کی تھی کہ ہمیں ہمارے مقررہ حق سے کچھ زاید دیا جائے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (علیہ السلام) اس نوع کی غیر منصفانہ تقسیم کا ارتکاب نہیں کرسکتا ۔ لفظ غلول بہرحال عام ہے نبی (علیہ السلام) ہر نوع کی خیانت سے بالا ہے ۔ حل لغات : یغل : مصدر غلول ، خیانت ، بددیانتی ۔ بآء ، لوٹا ۔ پھرا ۔ ماوی : ٹھکانا ، جگہ ۔