وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ مَّا كَانَ حُجَّتَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتُوا بِآبَائِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی اور واضح آیتوں کی تلاوت (١٧) کی جاتی ہے، تو ان کے پاس اس بات کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لے آؤ
ف 3: یعنی جب ان کے سامنے حشرونشر کی کیفیات سے متعلق دلائل پیش کئے جاتے ہیں تو یہ کہتے ہیں ۔ کہ ہم تو جب مانیں گے ۔ جب ہمارے سامنے آباؤاجداد آکر کھڑے ہوجائیں ۔ اور رونما ہوکر اس عقیدے کی صداقت پر گواہی دیں ۔ فرمایا : کیا زندگی اور موت کا ردوبدل تم روزانہ ملاحظہ نہیں کرتے ۔ کیا یہ نہیں دیکھتے ۔ کہ تم میں لاکھوں انسان ہر روز کتم عدم سے عالم وجود میں آتے ہیں ۔ اور لاکھوں زندگی کی دنیا سے موت کی دنیا میں منتقل ہوجاتے ہیں ۔ کیا یہ اس بات کا اہم ترین ثبوت نہیں ۔ کہ سب لوگوں کو اسی طرح ایک وقفہ زندہ ہونا ہے ۔ اور خدا کے حضور میں اپنے عمال کا حساب پیش کرنا ہے ۔